بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر برباد کر کے آ رہا ہوں، کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

میری والدہ مجھ سے ناراض ہو کر  کسی دوسری جگہ گئی ہوئی تھیں، دوسری جگہ جا کر بیوی کی غیر موجودگی میں میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ دیکھیں! کیا کر کے آیا ہوں گھر میں، بیوی کو مارا ہے، رو رہی تھی، اس کا کیا حال ہوا ہے، بہت رو رہی تھی،  گھر برباد کر کے آ رہا ہوں، اپنے گھر چلی گئی ہے ہمیشہ کے لیے، خوش ہو گئی امی! آپ؟ 

مندرجہ بالا الفاظ کے کہتے ہوئے یا اس سے پہلے میری کوئی نیت نہیں تھی، اور نہ ہی گھر میں بیوی سے کچھ کہا تھا، اور نہ ہی مارا تھا، میرا  مقصد صرف اور صرف والدہ کو ڈرانا تھا، اور نہ ہی والدہ ایسی کوئی بات چاہتی  تھیں۔

سائل نے گھر میں بیوی سے کسی بھی قسم کا کوئی لفظ نہ کہا تھا، اوپر جو جملہ لکھا ہے: "چلی گئی ہے ہمیشہ کے لیے" اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ والدہ گھبرا جائیں اور سوچیں کہ کہیں  سائل گھر میں کوئی طلاق وغیرہ کی بات نہ کر آیا ہو۔

اِن باتوں میں سائل کی نیت طلاق کی ہرگز  نہ تھی، اور نہ ہی کبھی اس طرح کا کوئی خیال ذہن میں آیا، صرف والدہ کو ڈرانے کے لیے یہ الفاظ کہے تھے،  اور نہ ہی گھر میں کسی بھی طرح کا طلاق کو ذکر ہوا تھا، مطلب یہ کہ گھر میں کسی بھی طرح کی کوئی بات نہ ہوئی تھی۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہر نے اپنی والدہ کے سامنے جو الفاظ ادا کیے ہیں  اِن الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، دونوں کا نکاح بدستور برقرار ہے، تاہم شوہر نے جھوٹ کہا ہے، اس سے توبہ کرنا لازم ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

«(وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي»

(کتاب الطلاق،  الباب الأول في تفسير الطلاق وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه، 1/ 348، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں