اگر رقم بینک میں جمع کرنے کے بجائے تھوڑی تھوڑی رقم سے پلاٹ لے کر رکھا جائے؛ تاکہ جب گھر بنانا ہو تو ان کو بیچ کر بن جائے۔ ایسے پلاٹ پر زکوٰۃ کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟
جو پلاٹ فروخت کرنے کی نیت سے لیا جائے، یعنی پلاٹ خریدتے وقت یہ نیت ہو کہ مناسب دام ملنے پر اسے فروخت کردوں گا، پھر بعد میں اس رقم سے خواہ گھر بنانے کی نیت ہو یا کچھ اور نیت ہو بہرصورت ایسا پلاٹ مالِ تجارت ہے، اور مالِ تجارت اگر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو سال گزرنے پر اس کی زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ اور اس طرح کے پلاٹوں میں زکاۃ ادا کرتے وقت اس کی جو مارکیٹ ویلیو ہو اس کے مطابق زکاۃ ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ پلاٹوں کی قیمتِ فروخت کے مطابق سال پورا ہونے پر اس کی ڈھائی فیصد زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔ اگر ان پلاٹوں کی ملکیت سے پہلے ہی آپ صاحبِ نصاب تھے تو جس تاریخ کو آپ کے دیگر قابلِِ زکاۃ اموال کی زکاۃ کی ادائیگی کا سال پورا ہو اس تاریخ کو مذکورہ پلاٹوں کی زکاۃ بھی ادا کرنا لازم ہوگی، اگرچہ اس وقت خاص ان پلاٹوں کی خریداری پر مکمل سال نہ بھی گزرا ہو۔ اور اگر آپ مذکورہ پلاٹ خریدنے سے پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں تھے تو ایسی صورت میں جب آپ نے یہ پلاٹ بیچنے کی نیت سے لیے تھے (بظاہر اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ ہوگی) تو قمری تاریخ کے اعتبار سے ٹھیک ایک سال بعد آپ کی زکاۃ کا سال پورا ہوگا، اس وقت ان کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق سالانہ ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگی۔
الفتاوى الهندية (1/ 179):
"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصاباً من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين۔ وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."
وفیه أیضاً:
"ومن کان له نصاب فاستفاد فی أثناء الحول مالاً من جنسه، ضمه إلی ماله وزکاه سواء کان المستفاد من نمائه أولا، وبأي وجه استفاد ضمه ..." الخ
(هندیة، کتاب الزکاة ۱/۱۷۵ ط رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109201369
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن