ایک بندے کی کل آمدنی پورے مہینے میں خرچ ہو جاتی ہے، اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا، اب اس کے والد نے اس کو ایک زمین دی ہے کہ اپنے لیے گھر بنا لے، تو کیا وہ اپنا گھر بنانے کے لیے زکوۃ کا مال لے سکتا ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال موجود نہ ہو اور وہ سید / ہاشمی نہیں تو وہ زکوۃ لے کر اپنا گھر تعمیر کرسکتا ہے، تاہم اگرمذکورہ شخص کے پاس نصاب کی بقدر رقم جمع ہوجائے تو جب تک اسے خرچ نہ کرلے یا وہ نصاب سے کم نہ ہو تو مزید زکاۃ نہیں لے سکے گا۔
نوٹ: یہ مسئلے کا شرعی حکم ہے، کسی مخصوص فرد کے لیے زکوٰۃ لینے یا دینے کی سفارش نہیں ہے۔
'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:
"ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي."
(کتاب الزکاة، 1 /189، ط: رشیدیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506102764
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن