بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گانے کے طرز پر نعت پڑھنے کا حکم


سوال

پہلے سوال کیا تھا گانوں کی طرز پہ نعت پڑھنا کیسا ہے؟  تو محترم!  لوگ درج ذیل جواز پیش کرتے ہیں،  اس پہ تفصيل سے بتائیں:

یہ سہی ہے  ۔۔۔ لیکن یہ سمجھنا کے گانے کی طرز استعمال کر کے پڑھنا غلط ہے ۔ یہ غلط ہے ۔۔۔ گانے کی طرح پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسی طرح موسیقی کے ساتھ پڑھنا غلط ہے۔ طرز کا تعلق بحر سے ہوتا ہے  ۔۔۔  ایک طرز اگر گانے میں استعمال  ہوگئی اس کا مطلب نہیں کہ وہ اب نعت میں استعال نہ ہو ۔۔۔  اگر کسی نے ایک طرز کو گانے میں استعمال کیا ہے تو میرا فرض بنتا ہے میں اس طرز کو نبی کی نعت میں استعمال کروں ۔۔۔ پھر تو گانوں کی بحر میں بھی کلام نہ پڑھو  ۔۔۔ اگر طرز میں نہیں پڑھتے!

جواب

بصورتِ  مسئولہ  نعت   ( یعنی آپ ﷺ   کی تعریف کرنا ،ان کے اوصاف حمیدہ کا بیان کرنا ،حسن وجمال بیان کرنا یاآپ سے محبت وعقیدت کا اظہار کرنا )  جائز طریقہ سے  (یعنی جس کا مضمون خلاف شرع نہ ہو، اس میں غلو بھی نہ ہو، اور موسیقی کے طرز پر بھی نہ ہو) پڑھنا نہ صرف ایک جا ئز عمل ہے،  بلکہ کارِ  ثواب  اور   سرمایہ آخرت  بھی ہے ۔  اور نعت  کو گانوں کے طرز پر پڑھنا اور  اس  کے  ساتھ ساز  اور  موسیقی کو شامل کرنا  تعلیماتِ نبویہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سراسر انحراف ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی ایک طرح سے گستاخی ہے  ، قرآن مجید کو گانے کی طرز پر پڑھنے والوں سے متعلق حدیث شریف میں ہے:

"حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے  کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم قرآنِ کریم اہلِ عرب کی طرح اور ان کی آوازوں کے مطابق پڑھو،  اہلِ عشق اور اہلِ کتاب کے طریق کے مطابق پڑھنے سے بچو ، میرے بعد ایک جماعت پیدا ہو گی جس کے افراد راگ اور نوحہ کی طرح آواز بنا کر قرآن پڑھیں گے، ان کا حال یہ ہو گا کہ قرآن ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا (یعنی نہ ہی  ان کا پڑھنا قبول ہوگا اور نہ  ہی  ان کو پڑھنے پر ثواب ملےگا) نیز ان کی قرأت سن کر خوش ہونے والوں کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔"

( کتاب فضائل القرآن، باب آداب التلاوۃ ودروس القرآن، رقم الحدیث:2207، ج:1، ص:675، ط:المکتب الاسلامی)

لہذا نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو  گانے کے طرز پر پڑھنا جس سے گانے کی طرف دھیان جائے یاگانے کی لذت محسوس ہو شرعًا جائز نہیں، ایسی نعت نظم پڑھنے اور  سننے سے اجتناب کرناہر مسلمان پر  لازم ہے، البتہ کسی گانے کی دھن کو نقل کرنے کی بجائے صرف آواز اچھی کر کے اتار چڑھاؤ کے  ساتھ  پڑھا جائے، اور اس میں موسیقی  کے قواعد کا لحاظ بھی نہ ہو  (نیز موسیقی ایک ایسے فن کو کہتے ہے جس کے ذریعے گانے میں سُر نکالنے کے احوال،  اور سُروں کی موزونیت کے احوال، اور آوازوں کو ماہرانہ انداز میں ترتیب دینے کے احوال، اور راگ کے احوال سے بحث کی جاتی ہے، مذکورہ تعریف کی رُو سے   موسیقی کا اطلاق صرف آلاتِ موسیقی پر نہیں ہوتا،  بلکہ آوازوں کو ماہرانہ انداز میں ترتیب دینے،یعنی منہ سے موسیقی جیسے آوازیں نکالنے  کو بھی موسیقی کہاجاتا ہے) اور  موسیقی کے کسی قسم کے آلے کا استعمال بھی  نہ ہو   (جیسا کہ عام طور پر اشعار پڑھے جاتے ہیں) تو جائز ہوگا، یہ نعت کو گانے کے طرز پر پڑھنے کا حکم ہے۔

باقی اشعار کی بحور مقرر ہیں،اور ان بحور کے مطابق اشعار کہنے کے لیے کسی گانے کو سامنے رکھ کر اس کی نقالی کرنا، اور اسی طرز اور اتار چڑھاؤ کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں ہے۔  گانا سنے بغیر اور  گانے کی آواز کے اتار چڑھاؤ کا لحاظ رکھے بغیر کسی بھی بحر پر    معیاری اور اچھے اشعار بنائے جاسکتے ہیں، اور انہیں خوب صورت آواز میں پڑھا جاسکتا ہے۔  اب اگر کوئی شخص علم العروض و القوافی کا لحاظ رکھ کر  گانا سنے بغیر کسی بحر پر  معیاری اشعار بناتا ہے، تو  ممکن ہے کہ وہ  بحر کسی نہ کسی گانے  کے اشعار میں  بھی استعمال ہوئی ہوگی، اس لیے یہ کہنا تو درست نہیں ہے کہ جو بحر کسی گانے میں استعمال ہو، پھر اس بحر پر بھی کلام نہ پڑھو، کیوں کہ گانوں کو دیکھ کر بحور متعین نہیں کی گئیں، بلکہ عرب کے  قدیم معیاری اشعار کو سامنے  رکھ کر علامہ خلیل احمد الفراہیدی (استاذِ امام سیبویہ) رحمہما اللہ نے یہ بحور مدون کی تھیں۔ لیکن اگر کوئی شخص شعر کی بحر کا بہانہ بناکر پہلے گانے  سنتا  ہے، اور پھر  گانے کے مطابق اشعار بناتا ہے، اور گانے کے لہجے کی نقالی کرتا ہے، تو خود اندازہ کرلیجیے کہ اسے کتنی مرتبہ گانا سننے کا گناہ کرنا پڑے گا، پھر اسی گانے کی بحر اور آواز کے اتار چڑھاؤ میں پیروی کرنی ہوگی، یہ کیسے کسی سچے عاشقِ رسول ﷺ سے ممکن ہوسکتا ہے!!!

باقی آپ کے سوال سے مقصود اگر کوئی اور بات پوچھنی ہو تو اس کو واضح کرکے دوبارہ ارسال کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے مطابق جواب جاری کیا جائےگا۔

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"وَأَمَّا عِلْمُ الْمُوسِيقَى: فَهُوَ عِلْمٌ رِيَاضِيٌّ يُعْرَفُ مِنْهُ أَحْوَال النَّغَمِ وَالإِْيقَاعَاتِ، وَكَيْفِيَّةُ تَأْلِيفِ اللُّحُونِ، وَإِيجَادِ الآْلاَت".

(المادة:علم، ج:30، ص:293، ط:اميرحمزه كتب خانه)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (اقرءوا القرآن بلحون العرب وأصواتها) عطف تفسيري، أي: بلا تكلف النغمات من المدات والسكنات في الحركات والسكنات بحكم الطبيعة الساذجة عن التكلفات (وإياكم ولحون أهل العشق) : أي: أصحاب الفسق (ولحون أهل الكتابين) ، أي: أرباب الكفر من اليهود والنصارى فإن من تشبه بقوم فهو منهم، قال الطيبي: اللحون جمع لحن وهو التطريب وترجيع الصوت، قال صاحب جامع الأصول: ويشبه أن يكون ما يفعله القراء في زماننا بين يدي الوعاظ من اللحون العجمية في القرآن ما نهى عنه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (وسيجيء) : أي سيأتي كما في نسخة (بعدي قوم يرجعون) بالتشديد، أي يرددون (بالقرآن) : أي يحرفونه (ترجيع الغناء) بالكسر والمد بمعنى النغمة (والنوح) بفتح النون من النياحة، والمراد ترديدا مخرجا لها عن موضعها إذا لم يأت تلحينهم على أصول النغمات إلا بذلك، قال الطيبي: الترجيع في القرآن ترديد الحروف كقراءة النصارى (لا يجاوز) : أي قراءتهم (حناجرهم) : أي طوقهم، وهو كناية عن عدم القبول والرد عن مقام الوصول، والتجاوز يحتمل الصعود والحدور، قال الطيبي: أي لا يصعد عنها إلى السماء، ولا يقبله الله منهم، ولا يتحدر عنها إلى قلوبهم ليدبروا آياته ويعملوا بمقتضاه (مفتونة) بالنصب على الحالية، ويرفع على أنه صفة أخرى لقوم، واقتصر عليه الطيبي: أي مبتلى بحب الدنيا وتحسين الناس لهم (قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم) بالهمز ويعدل: أي يستحسنون قراءتهم، ويستمعون تلاوتهم ." 

( کتاب فضائل القرآن، باب آداب التلاوۃ ودروس القرآن، رقم الحدیث:2207، ج:4، ص:1505، ط:دارالفكر) 

فقط والله  اعلم 


فتوی نمبر : 144206200969

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں