بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غلبہ شہوت کی وجہ سے مشت زنی کرنا


سوال

میری عمر ۱۹ سال ہے میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہر بیس پچیس دن بعد جب شہوت برداشت سے باہر ہوجائے تو  بد نظری میں مبتلا ہو کر مشت زنی کا شکار ہو جاتا ہوں ،میری شادی نہیں ہوئی ہے ، کبھی میں ایک مہینہ بھی برداشت کر لیتا ہوں ،لیکن بد نظری ہو جاتی ہی اسکی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں ، مجھے بہت گناہ گاری محسوس ہوتی ہے ، کام سے بھی میرا دھیان ہٹ جاتا ہے ،اللہ سے بھی میں بہت دور ہوجا تا ہوں، لیکن دو تین دن بعد دوبارہ نیکی پے آجا تا ہوں اور  کچھ عرصہ بعد دوبارہ سے گناہ کا شکار ہوجاتا ہوں۔  مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں برائے  مہربانی میری اصلاح فرما دیں ۔

جواب

اسلام ایک دین فطرت ہے اس کے تمام احکامات میں انسان کی فطری ضرورتوں کا لحاظ رکھا  گيا ہے ، انہی ضروریات میں سے نکاح بھی ہے ، نکاح ہماری فطرت کے عین مطابق ہے اور اگر گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوتو نکاح کرنا واجب ہوجاتا ہے  ۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال : مسئلہ احکام نکاح سے متعلق جاننا چاہتاہوں کہ نکاح کا حکم مطلق ہے یا اس کا حکم حال کے مطابق بدلتا رہتا ہے ؟

الجواب حامداومصليا:نکاح کا حکم سب کے حق میں یکساں نہیں ہے ، جس پر شہوت غالب ہو کہ بغیر نکاح کے زنا میں مبتلاہوجانے کا مظنہ ہو اور وہ مہر و نفقہ پر قادر ہو ، اس کے ذمہ نکاح کرنا فرض ہے ، نکاح نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔"

(فتاوی ، محمودیہ ،ج:10 ، ص:472 ،ط:ادارۃ الفاروق)

نیز حدیث مبارک میں بھی نکاح کو نظر اور شرمگاہ کی حفاظت کرنےوالا عمل قرار دیا گیا ہے  چنانچہ  اگر کسی شخص پر شہوت کا غلبہ ہوجائے تو شریعت نے اس کو   نکاح کرنے کا حکم  دیا ہے جو کہ عین فطرت کے مطابق ہے ، لیکن اگر کوئی  شخص  جسمانی اعتبار سے تو نکاح کی طاقت رکھتا ہو لیکن مالی اعتبار سے  شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس پر روزے رکھنا لازم ہیں ، کیونکہ روزوں کی وجہ سے جہاں تقوی کی بنیاد پر وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے وہیں روزے کی حالت میں بھوکا اور پیاسا رہنے کی وجہ سے شہوت کا زور ٹوٹتا ہے ۔

لہذا  صورت مسئولہ میں سائل کا غلبہ شہوت کی بنیاد پر مشت زنی کرنا ناجائز اورحرام ہے ، کئی احادیث میں اس فعلِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے، اور  ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے   ... اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔

شعب الایمان میں ہے :

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا . قال البخاري في التاريخ".

(فصل فيتحريم الفروج ومايجب التعفف عنها ، ج:7 ، ص:329 ، رقم الحديث:5087 ، ط:مكتبة الرشد)

اس لیے سائل کی  اگر  نکاح کی استطاعت ہے تو جلد ازجلد  نکاح کرنے کی کوشش کی جائے، ورنہ غلبہ شہوت سے بچنے کے لیے کثرت سے روزوں کا اہتمام کیا جائے، اور ساتھ نیک لوگوں کی صحبت میں  بیٹھنے کا اہتمام اور تنہائی میں رہنے سے اجتناب کیا جائے ، بدنظری سے مکمل پرہیز کرے، البتہ اگر کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہو کہ زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہوجائے  اور اس سے بچنے کے لیے کسی نے یہ  عمل کرلیا اور اس عمل سے استجلاب شہوت (قضاء شہوت) مقصود نہیں ہو بلکہ  تسکین شہوت مقصود ہو  تو یہ زنا جیسے کبیرہ گناہ سے کم درجہ کا ہے۔(البتہ اس کی عادت نہ کرلے ورنہ طبی اعتبار سے سخت نقصان ہوسکتا ہے)

سنن ابن ماجہ  میں ہے :

"عن علقمة بن قيس، قال: كنت مع عبد الله بن مسعود بمنى، فخلا به عثمان فجلست قريبا منه، فقال له عثمان: هل لك أن أزوجك جارية بكرا تذكرك من نفسك بعض ما قد مضى؟ فلما رأى عبد الله أنه ليس له حاجة سوى هذا، أشار إلي بيده، فجئت وهو يقول: لئن قلت ذلك، لقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا معشر الشباب، ‌من ‌استطاع ‌منكم الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع، فعليه بالصوم، فإنه له وجاء»."

(سنن ابن ماجہ ، باب ماجاء فی فضل النکاح،رقم الحدیث : 1845 ، ج:1، ص:592،ط:دار احیاء الکتب)

فتاوی شامی میں ہے :

"ويكون واجبا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية وهذا إن ملك المهر والنفقة، وإلا فلا إثم بتركه بدائع (و) يكون (سنة) مؤكدة في الأصح فيأثم بتركه ويثاب إن نوى تحصينا وولدا (حال الاعتدال) أي القدرة على وطء ومهر ونفقة ورجح في النهر وجوبه للمواظبة عليه والإنكار على من رغب عنه (، ومكروها لخوف الجور) فإن تيقنه حرم ذلك... وفي الرد : قلت: وكذا فيما يظهر لو كان لا يمكنه منع نفسه عن النظر المحرم أو عن الاستمناء بالكف، فيجب التزوج."

(کتاب النکاح ، ج:3 ، ص:6 ، ط:ایچ ایم سعید)

وفیہه ایضاً:

"وكذا ‌الاستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث «ناكح اليد ملعون» ولو خاف الزنى يرجى أن لا وبال عليه...  ‌

وفي رد المحتار : مطلب في حكم ‌الاستمناء بالكف (قوله: وكذا ‌الاستمناء بالكف) أي في كونه لا يفسد لكن هذا إذا لم ينزل أما إذا أنزل فعليه القضاء كما سيصرح به وهو المختار كما يأتي لكن المتبادر من كلامه الإنزال بقرينة ما بعده فيكون على خلاف المختار (قوله: ولو خاف الزنى إلخ) الظاهر أنه غير قيد بل لو تعين الخلاص من الزنى به وجب؛ لأنه أخف وعبارة الفتح فإن غلبته الشهوة ففعل إرادة تسكينها به فالرجاء أن لا يعاقب اهـ زاد في معراج الدراية وعن أحمد والشافعي في القديم الترخص فيه وفي الجديد يحرم ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم..."

(كتاب الصوم ، باب مايفسد الصوم وما لايفسد الصوم ،مطلب في حكم الاستمناء بالكف ، ج:2 ، ص:399 ، ط:ايچ ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144308101588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں