بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غلط بیانی کرکے شہرت کے حصول کے لیے کسی ملک کی شہریت حاصل کرنا


سوال

ایک شخص جو اپنے آبا ؤ اجداد سے پاکستانی شہری ہے، وہ بیرون ملک یعنی یورپ ممالک میں کسی نہ کسی طریقے سے جاپہنچتا ہے، وہاں رہنے سہنے کے لیے وہاں کے دستاویزات حاصل کرنے کے لیے ایک جھوٹے قسم کا کیس دائر کرتا ہے کہ میں پیدائشی طور پر (مثلاً)پاکستان کہ صوبہ فلاں سےہوں، وہاں کہ حالات خراب ہیں، میں بمشکل اپنی جان بچا کر یہاں پہنچا ہوں، مجھے یہاں رہائش کے دستاویزات فراہم کیےجائیں،پھر وہاں کی حکومت اس کو اس فریاداور انسانی حقوق کی خاطر وہاں کی نیشنیلیٹی یا رہائش کے لیے کوئی دوسرے کاغذات جاری کرتی ہے، جب کہ حقیقت میں تو  یہ پاکستانی ہے اور یہاں اس کے ساتھ کوئی بھی مبینہ  واقعہ پیش نہیں آیا ہے، لیکن پھر بھی صرف یورپ میں رہنے سہنے اور شہرت کے لیے جعلی کہانی بناتا ہے،اور جب اس کو پاکستانی حثیت سے کوئی فائدہ نظر آتا ہے تو فوراً یہ پاکستانی بن جاتا ہے اور اس پر یہاں پاکستان کی مراعات حاصل کرتا ہے، اس شخص کے بارے میں قرآن وسنت اور فقہ کی روشنی میں کیا حکم صادر ہوتا ہے؟ کیا ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

بلا کسی ضرورت و حاجت اور شدید مجبوری کے  صرف دولت کے حصول اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے یا اپنے معاشرے میں معزز بننے اور دوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی جتلانے  کے لیے مسلم ملک سے ہجرت کرکے  غیر مسلم ممالک میں جاکر مستقل رہائش اختیار کرنا اور دار الحرب کی شناخت و قومیت کو افضل سمجھتے ہوئے دار الاسلام کی شناخت و قومیت پر ترجیح دے کر غیر مسلم ملک کی شہریت و قومیت حاصل کرنا  جائز نہیں ہے، اس لیے  کہ اس صورت میں آدمی گویا محض دنیاوی لالچ کی وجہ سے اپنے دین و ایمان کو اور اپنے دینی تشخص کو داؤ پر لگاتا ہے اور عام طور سے تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جو لوگ صرف ان اغراض کی وجہ سے غیر مسلم ممالک جاتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ ان ممالک میں موجود گناہوں اور   منکرات کے سمندر میں ڈوب کر اگر اپنے ایمان سے محروم نہ بھی ہوں تو کم از کم اپنے دینی احکام اور دینی تشخص  سے ضرور محروم ہو جاتے ہیں، اور رفتہ رفتہ اپنے دینی لباس، حلیہ، شکل و صورت اور بود و باش میں مکمل طور پر کفار کی مشابہت  نہ صرف اختیار کرتے ہیں،  بلکہ کفار کی مشابہت کو اپنے لیے  باعثِ فخر سمجھتے ہیں،  جو کہ صریح حرام ہے، حدیث شریف میں شدید ضرورت  کے بغیر کفار و مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اسی کے مثل ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کی آگ اور کفر کی آگ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، تم یہ امتیاز نہیں کر سکو گے کہ یہ مسلمان کی آگ ہے یا مشرکین کی آگ ہے۔

اس تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے صورتِ مسئولہ میں اس شخص کے لیے غلط بیانی اور دھوکہ کے ذریعے محض شہرت اور کسی عذر کے بغیر کافروں کے ملک میں  رہائش اختیار کرنے کے لیے کفار کے ملک میں جانا جائز نہیں ہے، نیز مذکورہ بالا طریقۂ کار کے مطابق شہریت حاصل کرنے میں ملک و قوم اور بسا اوقات دین کی بدنامی بھی ہوتی ہے، لہذا اس طرزِ عمل سے اجتناب ضروری ہے۔

تفسیرِ قرطبی میں ہے:

"(ولا تركنوا) الركون حقيقة الاستناد والاعتماد والسكون إلى الشيء والرضا به، قال قتادة: معناه لا تودوهم ولا تطيعوهم. ابن جريج: لا تميلوا إليهم. أبو العالية: لا ترضوا أعمالهم، وكله متقارب...(إلى الذين ظلموا) قيل: أهل الشرك. وقيل: عامة فيهم وفي العصاة...وهذا هو الصحيح في معنى الآية، وأنها دالة على هجران أهل الكفر والمعاصي من أهل البدع وغيرهم، فإن صحبتهم كفر أو معصية، إذ الصحبة لا تكون إلا عن مودة."

(سورة هود، الآية:١١٣، ج:٩، ص:١٠٨، ط:دار الكتب المصرية)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن سمرة بن جندب: أما بعد، قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "‌من ‌جامع ‌المشرك وسكن معه فإنه مثله."

(أول كتاب الجهاد، باب في الإقامة بأرض الشرك، ج:٤، ص:٤١٣، ط:دارالرسالة العالمية)

وفیہ ایضاً:

"عن قيس عن جرير بن عبد الله، قال: بعث رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سرية إلى خثعم، فاعتصم ناس منهم بالسجود، فأسرع فيهم القتل، قال: فبلغ ذلك النبي -صلى الله عليه وسلم- فأمر لهم بنصف العقل وقال: "أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين" قالوا: يا رسول الله، لم؟ قال: " لا تراءى ناراهما."

(أول كتاب الجهاد، باب النهي عن قتل من اعتصم بالسجود، ج:٤، ص:٢٨٠، ط:دارالرسالة العالمية)

فتاویٰ بینات میں ہے:

"غیر مسلم ملک بالخصوص جو متذکرہ بالا(یورپ و برطانیہ) بے حیائی کے طوفان میں گھرا ہوا ہو ، کسی نیک یا دینی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ معیار زندگی بلند کرنے اور خوش حالی و عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے جاتا ہے، یہ ترکِ وطن کراہت سے خالی نہیں بلکہ خود کو منکرات و فواحش کے طوفان میں دھکیلنے کے مترادف ہے، یہاں تک کہ مسلمان کافروں کے ساتھ گھل مل جاتا ہے، اسی بناء پر حضور اکرم ﷺ نے کفار کے درمیان اقامت ( نیشنلٹی) اختیار کرنے کو کفار کی مماثلت قرار دیا ... مسلمانوں پر بڑائی کے اظہار کے لیے دارالکفر کو دارالاسلام پر ترجیح دینا گویا کفار کے طرزِزندگی میں ان جیسا بننے کے لیے ایسا کرنا ہے، جو کہ شرعا حرام ہے۔

(کتاب الحقوق والمعاشرۃ، ج:3، ص:377، ط:مکتبہ بینات)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101155

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں