بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غلط بیانی کرکے امام کی تنخواہ میں کمی کرنے کا حکم


سوال

ایک بندہ کسی مسجدمیں امام  بنتاہے  اوراسے امام لگانے والا کہتا ہے کہ آپ نےتین نمازیں پڑھانی ہیں،  اورمیں آپ کوتین ہزارروپےدوں گا، پھرساری نمازیں اسی کےذمہ لگادیتاہے، اورپیسےوہی (3 ہزار ) دیتاہے، جب کہ مسجدوالےاس کوگیارہ ہزاردیتےہیں کہ امام کو یہی گیارہ ہزار دیا کرو، لیکن وہ آٹھ ہزار خود رکھتا ہے،  کیااس بندےکےلیےوہ آٹھ ہزاربچاناجائز ہے؟  جب کہ مسجدوالوں کوکہتاہے کہ میں پورے (گیارہ ہزار) روپے اسی امام کودیتاہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص( جس نے دوسرے شخص کو امام لگایا ہے) اسی طرح غلط بیانی کرتا ہے تو یہ ناجائز ہے، اور اس کے لیے وہ آٹھ ہزار روپے لینا درست نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ  ہے:

"وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ."(الأنبیاء: 47)

بخاری شریف میں ہے:

"عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ‌إذا ‌خلص ‌المؤمنون ‌من ‌النار ‌حبسوا ‌بقنطرة ‌بين ‌الجنة ‌والنار، فيتقاصون مظالم كانت بينهمفي الدنيا حتى إذا نقوا وهذبوا، أذن لهم بدخول الجنة، فوالذي نفس محمد صلى الله عليه وسلم بيده، لأحدهم بمسكنه في الجنة أدل بمنزله كان في الدنيا."

(كتاب المظالم،باب قصاص المظالم، ج:2، ص:861، دار ابن كثير)

مشکاۃ شریف میں ہے:

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تعالى: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره ،رواه البخاري". 

(كتاب البيوع، باب الإجارة، الفصل الأول، ج:2، ص:899، ط: المكتب الإسلامي، بيروت)

وفيه أيضاً:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه» . رواه ابن ماجه."

(كتاب البيوع، باب الإجارة، الفصل الأول، ج:2، ص:900، ط: المكتب الإسلامي، بيروت)

ترمذی شریف میں ہے:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "مطل الغني ظلم، وإذا احلت على مليء، فاتبعه، ولا تبع بيعتين في بيعة".

(أبواب البيوع،‌‌ باب ما جاء في مطل الغني أنه ظلم، ج:2، ص:578، ط:دار الغرب الإسلامي- بيروت)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

 "حقوق الآدميين وهي لا تسقط بالتوبة، ولا فرق بين المقتول والمسروق منه، والمغصوب منه والمقذوف وسائر حقوق الآدميين، فإن الإجماع منعقدٌ على أنها لا تسقط بالتوبة، ولا بد من أدائها إليهم في صحة التوبة، فإن تعذر ذلك فلا بد من الطلابة يوم القيامة."

(سورة النساء، آيت:92، ص:381، ج:2، ط:دار طيبة )

فتاوی عالمگیریہ  میں ہے:

"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الإجارۃ، الباب الثانی متی تجب الأجرۃ، ج:4، ص:423، ط:ماجدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507100603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں