بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غلط بیانی کرکے استعفا دینا اور مراعات حاصل کرنا


سوال

میں ایک اسکول میں چوکیدار تھا اس وقت میں علم حاصل کررہا تھا ِ،ڈیوٹی  میری جگہ میرا چھوٹا بھائی احسن طریقے سے سرانجام دیتا تھا. تقریباً بیس فیصد ڈیوٹی  میں نے کی ہے اور اسی فیصد ڈیوٹی  میرے بھائی نے کی ہے، جب گیارہ سال پورے ہوئے تو میں میڈیکل ان فٹ لکھ کر ڈیوٹی  سے نکل گیا، حالانکہ میں صحیح سالم ہوں نہ کوئی  بیماری ہے اور نہ میڈیکل ان فٹ ہوں، اس پر مجھے تقریباً(400000) بونس مل گیا اور ابھی مجھے ہر مہینے (13000) روپے پینشن آتی ہے، اب چونکہ بونس کا مسئلہ  ہے کیا میرے لیے یہ بونس لینا جائز ہے  ؟ ماہانہ پینشن لینا میرے لیے جائز ہے  ؟ یا صرف بیس فیصد لینا میرے لیے جائز ہوگا ؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کا  ڈیوٹی سے حقیقتاً  معذور ( ان فٹ) نہ ہونے  کے  باوجود اپنے آپ کو معذور ظاہر کرکے استعفا دینا؛تاکہ ادارے سے اضافی مراعات حاصل کی جاسکے  یہ کام  جھوٹ اور دھوکے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے   شرعا ناجائز ہے ،اس پر توبہ و استغفار لازم ہے ، اب سائل کے لئے  بونس اور پنشن کے سلسلے میں حکم یہ ہے کہ ادارے کی طرف سے عام طور(بغیر عذر)  استعفا دینے کی صورت میں جو مراعات طے ہے وہی لےسکتا ہے ، اضافی مراعات جو ان فٹ ہونے کی وجہ سے دی جاتی ہے اس کا لینا شرعا ناجائز ہے، اگر لے لی ہے تو اس کا لوٹانا ضروری ہے۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے: 

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب." 

(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج: 36، صفحہ: 504، رقم الحدیث: 22170، ط:  مؤسسة الرسالة)

ترجمہ: مؤمن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال: «ما هذا يا صاحب الطعام؟» قال: أصابته السماء يا رسول الله قال: «أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس؟ ‌من ‌غش فليس مني»."

(كتاب البيوع،باب المنهي عنها من البيوع،ج:2،ص:861،ط:المكتب الاسلامي)

ترجمه:حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے اور اپنا ہاتھ اس ڈھیر میں داخل کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کو کچھ تری محسوس ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اے غلے کے مالک : یہ تری کیسی ہے؟اس نے عرض کیا "یا رسول اللہ: اس  حد تک بارش کا پانی پہنچ گیا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" تو پھر تم نے تر غلہ کو اوپر کی جانب کیوں نہیں رکھاتا کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے، جو شخص فریب دے وہ مجھ سے نہیں ہے۔

شرح المجلۃ میں ہے:

 "لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".

(1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101754

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں