بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر تعمیرشدہ بلڈنگ میں فلیٹ بک کرنے کی صورت میں پیشگی ادا کی ہوئی رقم کی زکوۃ کس پر لازم ہوگی؟


سوال

فلیٹ کی بکنگ کے حوالےسے ایک مسئلہ دریافت طلب ہے وہ یہ کہ کسی غیر تعمیر شدہ بلڈنگ میں جب کسی فلیٹ کی بکنگ کرائی جاتی ہے تو اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ یہ عقد استصناع کا ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر استصناع بنائیں تو ابتداءً اجارہ اور انتہاءً بیع ہوگی اور اس میں مستصنع کی طرف سے بکنگ کی مد میں دی جانے والی رقم صانع کی ملکیت شمار ہوگی، لہذا اس صورت میں مستصنع کی طرف سے ادا شدہ رقم چونکہ مستصنع کی ملکیت سے نکل چکی ہوگی اس لیے اس پر اس پیشگی ادا کردہ رقم پرزکوۃ بھی واجب نہ ہوگی ،لیکن اگر اس عقد کو ہم وعدۂ بیع بنائیں اور استصناع بایں طور کہ ابتداءً اجارہ اور انتہاءً بیع نہ بنائیں تو اس میں پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ اس صورت میں پیشگی اداشدہ رقم صانع کے پاس امانت ہوگی جب تک وہ استعمال نہ کرے، لیکن ہر صورت میں وہ مستصنع کی ملکیت میں رہے گی ،اس کی ملکیت سےنہیں نکلے گی ، لہذا اس کی زکوۃ بھی مستصنع کے اوپر واجب ہوگی ، حالاں کہ عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے ، بکنگ کرانے والے نہ اس کو اپنی ملکیت میں شمار کرتے ہیں، نہ اس کی زکوۃ کو اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں اور بلڈر حضرات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو اپنی ملکیت ہی سمجھتے ہیں ،یہ مختصر معاصر علماء کرام کی آراء کا خلاصہ تھا، اب مقصودی بات یہ عرض ہے کہ اس مسئلے میں کچھ الجھنیں ہیں ، آنجناب سے گذارش ہے کہ اس کو حل فرماویں، اگر ہم اس عقد کو عقدِ استصناع ہی مانیں، وعدۂ بیع نہ کہیں تو اس میں بکنگ کرانے والے احباب بھی زکوٰۃ نہ دینے کے گناہ سے بھی بچیں گے ،کیوں کہ وہ اس کو اپنی ملکیت میں شمار بھی نہیں کرتے اور زکوٰۃ بھی ادا نہیں کرتے ،جب ہم بکنگ کے حوالے سے بلڈر حضرات کا ایگریمنٹ پڑھتے ہیں تو اس میں انگلش اور اردو دونوں میں عقد اور معاملہ کرنے کے الفاظ مذکور ہوتے ہیں ،وعدہ کا کہیں ذکر نہیں ہوتا، اگر کوئی بک کرانے کے بعد زکوۃ کا مسئلہ پوچھے تو ہم اس کو کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ زکوٰۃ مستصنع پر ہے، جب کہ اس نے عقد کیا ہے شروع میں نہ کہ وعدہ ،وعدۂ بیع والا قول اس صورت میں تو منطبق ہوسکتا ہے کہ جب عقد کرنے سے پہلے کوئی  بلڈر پوچھے تو ہم اس کا ایگریمنٹ وعدہ کے الفاظ کے ساتھ بنوالیں ،لیکن مسئلہ یہ ہےکہ کوئی  درمیان میں مسئلہ دریافت کرے تو ہم کیسے اس کے عقد کو وعدۂ بیع بنادیتے ہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ بلڈر حضرات بھی وعدۂ بیع پر راضی نہیں ہوتے ،بلکہ وہ قانونی طور پر عقد ہی کا معاملہ کرواکر معاملہ کی پختگی چاہتے ہیں، جب کہ وعدہ میں وہ پختگی اس دور میں نہیں سمجھی جاتی ،رہا یہ اشکال کہ عقدِ استصناع کی صورت میں اگر ہم پیشگی ادا شدہ رقم کو صانع کی ملکیت میں شمار کریں گے تو صانع پر دوہری زکوۃ لازم ہوگی ، ایڈوانس آئی ہوئی  رقم کی اور فلیٹ یا بلڈنگ وغیرہ کی ،تو اس بارے میں یہ عرض ہے کہ ایڈوانس رقم تو بلڈر تعمیر کے اخراجات میں لگادیتا ہے، اپنے پاس سنبھال کر نہیں رکھتا ، تو اس لئے دوہری زکوۃ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ،لہذا اگر ہم اس کو عقدِ استصناع بصورت اجارہ ابتداءً اور انتہاءً بیع بنالیں تو کیا آسانی نہیں ہوجاۓ گی ؟براۓ کرم الجھنیں دور فرمادیجیے،اور  اگر ان مذکورہ الجھنوں کے حل پر محیط کوئی  تفصیلی فتوی مضمون وغیرہ  ہوتو اس کی طرف بھی راہ نمائی فرمادیجیے ۔

جواب

مذکورہ مسئلہ کے جواب سے پہلے چند تمہیدات ملاحظہ فرمالیں:

1: غیرتعمیرشدہ بلڈنگ میں صرف نقشہ کی بنیاد پر جو فلیٹوں  کی بکنگ ہوتی ہے،وہ عقد نہیں ہوتا، بکنگ ہوتا ہے،بکنگ کو استصناع نہیں کہتے ،بلکہ وعدۂ بیع کہتے ہیں اور بکنگ کو عقدِ بیع یا عقدِ استصناع سے تعبیر کرنا درست نہیں ۔

2:عقدِ استصناع بیع کی ایک قسم ہے اور استصناع اور اجارہ میں فرق ہے،وہ فرق یہ ہے کہ استصناع میں صانع خود اپنے خام مال سے چیز تیار کرنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے،لہذا اگر خام مواد اس کے پاس موجود نہیں ہے تو اس کے ذمے لازم ہوتا ہے کہ وہ اسے مہیا کرے اور یہ بھی اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ مطلوبہ چیز کی تیاری کے لیے کام کرے اور اجارہ میں خام مواد گاہک کی طرف سے مہیا کی جاتی ہے اور تیار کرنے والے سے صرف اس کی محنت اور مہارت مطلوب ہے ،جس میں اس کی خدمات کے بدلے میں ایک متعین معاوضہ اسے دیا جاتا ہے،لہذا جب استصناع اور اجارہ میں فرق ہے تو یہ کہنا کہ مذکورہ معاملہ ( خریدار کا بلڈر سے فلیٹ کی بکنگ کروانا) کو اس طرح استصناع بنانا کہ ابتداءً اجارہ اور انتہاءً بیع ہو ،درست نہیں۔

3: بیعِ استصناع میں چیز کا مالک صانع ہوتا ہے ،مستصنع نہیں ہوتا اور شیئ مصنوع کو جب تک مستصنع کے حوالہ نہیں کیا جاتا صانع وہ چیز کسی اور کو فروخت کرسکتا ہے،فلیٹ کی بکنگ میں بلڈر کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اب اصل مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ جب غیر تعمیر شدہ بلڈنگ میں صرف نقشہ کی بنیاد پر فلیٹ بک کروانا اور اس میں بیع کا عقد کرنا بیع معدوم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہےاور اس کو ختم کرنا فریقین پر لازم ہے،تو اس صورت میں جو رقم بکنگ کروانے والے خریدار نے بلڈر کو ایڈوانس ادا کی ہے تو اس کا اصل مالک ( خریدار) کو لوٹانا واجب ہےاور اس صورت میں پیشگی ادا کی گئی رقم بلڈر کے پاس امانت ہے ،لہذا اس رقم پر زکوۃ بھی اپنی شرائط کے ساتھ بکنگ کرنے والے خریدار پر لازم ہوگی ،البتہ اگر عمارت کا ڈھانچہ تیارہونا شروع ہوجائے تووعدۂ بیع کے مطابق بیع درست ہوگی اور اس صورت میں پیشگی دی گئی رقم بائع کی ملکیت ہوگی اور اس کی زکوۃ اسی کے ذمہ لازم ہوگی۔

اور اگر فریقین شروع میں ہی وعدۂ بیع کرلیں تو اس صورت میں پیشگی ادا کی ہوئی رقم بلڈر کے پاس امانت ہوگی اور اس کی ملکیت بکنگ کروانے والے خریدار کی ہوگی اور اس صورت میں اگر وہ رقم نصاب کے بقدر ہو یا اس خریدار کے پاس دیگر مالِ زکوۃ نصاب کے بقدر ہو تو اس کی  زکوۃ بھی اسی خریدار پر لازم ہوگی۔

باقی یہ بات کہ جب بلڈر اور فلیٹ بک کروانے والا شروع میں بیع کا  عقد کرلیں اور درمیان میں ہم سے مسئلہ دریافت کریں تو اس کو کیسے وعدۂ بیع بنادیتے ہیں، حالاں کہ بلڈر حضرات بھی وعدۂ بیع پر راضی نہیں ہوتے ،بلکہ وہ قانونی طور پر عقد ہی کامعاملہ کرواکر معاملہ کی پختگی چاہتے ہیں ،جب کہ وعدہ میں وہ پختگی اس دور میں نہیں سمجھی جاتی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بلڈر مذکورہ معاملہ کو بکنگ قرار دیتا ہےبیع نہیں قرار دیتا،ورنہ معدوم کی بیع ہونے کی وجہ سے پورا معاملہ ہی ناجائز ہوگا،البتہ معدوم چیز کے بارے میں بیع کا وعدہ کرنا منع نہیں ہے۔ 

نیز یہ بات کہ بلڈر اور خریدار دونوں اس پیشگی رقم کو اس بلڈر کی ملکیت شمار کرتے ہیں  یہ بات درست نہیں ہے ،بلکہ امانت کے طور پر دیتے ہیں ،بلڈر کے استعمال کی وجہ سے قرض میں بدل جاتا ہےاور فلیٹ نہ بنانے کی صورت میں اس رقم کو واپس کرنا ضروری ہے،لہذا اس رقم پر اپنی شرائط کے ساتھ زکوۃ اس بکنگ کرنے والے پر لازم  ہوگی،ہاں جب متعینہ فلیٹ بننا شروع ہوگاتو بیع صحیح ہوجائے گی اور اس کے بعد بکنگ کرنے والے پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " لا يحل سلف وبيع ولا شرطان في بيع ولا ربح ما لم يضمن ولا بيع ما ليس عندك ."

(كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع،الفصل الثاني، 254/1 ،ط: رحمانية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والاستصناع أن تكون العين والعمل من الصانع فأما إذا كانت العين من المستصنع لا من الصانع فإنه يكون إجارة ولا يكون استصناعا كذا في المحيط."

(كتاب الإجارة،الباب الحادي والثلاثون في الإستصناع والاستئجار على العمل،517/4،ط:رشيدية)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"يلزم أن يكون المبيع موجودا.وذلك أن البيع عبارة عن مبادلة مال بمال والمال ما يمكن إحرازه وادخاره ولما كان المعدوم لا يمكن إحرازه ولا ادخاره فليس بمال والبيع بما ليس بمال باطل فبيع المعدوم باطل. مثلا إذا باع رجل من آخر ألف كيلة حنطة ولم يكن شيء من الحنطة في ملكه حين البيع فالبيع باطل فإن كان في ملكه خمسمائة كيلة منها فالبيع باطل في الباقي."

(الكتاب الأول البيوع،الباب الثاني ،الفصل الأول في حق شروط المبيع،المادة: 197، 177/1،ط: دار الجيل)

الموسوعة الفقهيةمیں ہے:

"للمبيع شروط هي:‌‌أن يكون المبيع موجودا حين العقد، فلا يصح بيع المعدوم، وذلك باتفاق الفقهاء.وهذا شرط انعقاد عند الحنفية."

(البيع،شروط البيع،أن يكون المبيع موجودا،14/9،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"[ ‌‌(المادة 370) البيع الباطل لا يفيد الحكم أصلا]

فإذا قبض المشتري المبيع بإذن البائع في البيع الباطل؛ كان المبيع أمانة عند المشتري فلو هلك بلا تعد يضمنه.يعني أن البيع الباطل سواء قبض المبيع، أو لم يقبض لا يفيد الملكية ولا يترتب عليه حكم مطلقا سوى أنه يكون أمانة إذا قبض.وعلى ذلك فلو اشترى إنسان مالا ووقفه؛ فلا يكون الوقف صحيحا."

(الكتاب الأول ، الباب السابع في بيان أنواع البيع،الفصل الثاني في بيان أحكام أنواع البيوع،المادة:370 ،393/1 ،ط: دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں