بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر شادی شدہ اور شادی شدہ شخص کا مشت زنی کرنا اور مشت زنی سے چھٹکارے کا طریقہ


سوال

مشت زنی سے متعلق کیا حکم ہے؟ اگر کوئی شخص شادی شدہ نہیں ہے اور شادی نہیں ہو رہی،  مشت زنی کرتا ہے یا شادی شدہ ہے اور بیرونِ  ملک میں ہے،  مشت زنی کرتا ہے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟؟

جواب

شریعت نے جنسی خواہش کی تسکین کے لیے  عفت والا راستہ نکاح کومتعین کیاہے ، اس حلال راستہ کے علاوہ کسی بھی طریقہ سے اپنی خواہش پوری کرنا حدودسے تجاوز کرنے کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے ۔  اس کی حرمت قرآنِ  کریم سے ثابت ہے۔چنانچہ  ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}"

[المؤمنون:۵ تا ۸]

ترجمہ:” اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں، مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر، سو ان پر نہیں کچھ الزام۔ پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔“ (ترجمہ از شیخ الہند)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ، اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’ {فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰئکَ هُمُ الْعٰدُوْنَ}، یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی قاعدہ سے حاصل شدہ لونڈی کے ساتھ شرعی قاعدے کے مطابق قضاءِ شہوت کے علاوہ اور کوئی بھی صورت شہوت پورا کرنے کی حلال نہیں، اس میں زنا بھی داخل ہے اور جو عورت شرعاً اس پر حرام ہے اس سے نکاح بھی حکمِ زنا ہے، اور اپنی بیوی یا لونڈی سے حیض و نفاس کی حالت میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ یعنی کسی مرد یا لڑکے سے یا کسی جانور سے شہوت پوری کرنا بھی۔ اور جمہور کے نزدیک استمنا بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینا بھی اس میں داخل ہے۔‘‘

(از تفسیر بیان القرآن۔ قرطبی۔ بحر محیط وغیرہ) (معارف القرآن)

 نیز کئی احادیث میں اس فعلِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی ٰ قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظر ِ کرم فرمائیں گے ، اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔ 

شعب الإيمان (7/ 329):

’’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". قال البخاري في التاريخ".

 ایک  اور حدیث میں ارشاد فرمایاگیا ہے کہ: اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس کا ہاتھ حاملہ ہوگا ۔

شعب الإيمان (7/ 330):

"عن أنس بن مالك قال:يجيء الناكح يده يوم القيامة ويده حبلىٰ".

لہٰذا بچے جب شادی کی عمر کو پہنچ جائیں اور بیوی کے نفقہ کا انتظام کرنے کے قابل ہوجائیں تو ان کے نکاح کا انتظام کرانا والدین کی ذمہ داری ہے، اس میں معمولی اور غیر اہم امور کی وجہ سے تاخیر کرنا بالکل مناسب نہیں، خصوصاً موجودہ ماحول میں جہاں بے راہ روی عام ہے، جلد از جلد اس ذمہ داری کو ادا کردیناچاہیے، اگر چہ رواج اس کا مخالف ہو، تمام غیر ضروری و غیر شرعی رسموں سے احتراز کر کے نکاح و شادی کو بہت آسان بنایا جاسکتا ہے، لیکن  جب تک اس کی ترتیب نہ بن پائے اگر گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے نوجوان کو چاہیے کہ  نفلی روزے رکھے، اور ہر وقت پاکیزہ اور باوضو رہنے کا اہتمام کرے، پانچ وقت نماز باجماعت کی پابندی کرے، اٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے کثرت سے استغفار کرے، اور روزانہ دن یا رات میں کوئی ایک وقت مقرر کرکے اچھی طرح وضو کرکے تنہائی میں دو رکعت نماز، توبہ اور حاجت کی نیت سے پڑھ کر گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگے، خوب روئے، اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرے اور رونے جیسی شکل بنا لے، اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو تمام گناہوں، خصوصاً اس گناہ سے نجات دے دے، اور ساتھ ساتھ آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم بھی کرے۔ اس کے علاوہ وہ اچھے اور نیک لوگوں کی مجالس میں شرکت کا اہتمام کرے، بری صحبت اور گندے ماحول سے بچے، اور اہل اللہ و مشائخ کی صحبت اور ان کی مجالس میں روزانہ کچھ وقت گزارنے کی کوشش کرے۔ ان سب کاموں کے ساتھ ساتھ جلد شادی کرنے کی فکر اور کوشش کرتا رہے۔ امید ہے کہ مذکورہ امور کی پابندی کرنے سے اللہ تعالیٰ نیک ہدایت اور گناہوں سے توبہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں گے۔

جہاں تک ایسے شادی شدہ افراد کی بات ہے جو بیرونِ  ملک رہنے کی وجہ سے بیوی سے دور ہوں اور اس وجہ سے مشت زنی میں مبتلا ہوں تو اس بارے میں شریعتِ مطہرہ میں ہمیں یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ  شادی شدہ آدمی کے لیے  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے 4  ماہ سے زائد بیوی سے جدا  رہنے کی ممانعت کا ضابطہ نافذ  فرمایا تھا ، اس لیے   اگر بیرونِ ملک بیوی سے دور رہنے والے شخص پر  شہوت کا اس قدر غلبہ ہو کہ مشت زنی کے  گناہ میں مبتلا ہو یا مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے چاہیے  کہ مندرجہ بالا ہدایات پر عمل کرنے کے  ساتھ ساتھ درج ذیل صورتوں پر بھی عمل کرے:

(1) بیوی کے پاس آنے کی یا اس کو اپنے پاس بلانے کی  فوری کوئی صورت اختیار کرے؛  تاکہ میاں بیوی دونوں عفت اور پاک دامنی کے  ساتھ  زندگی گزارسکیں۔

(2)  روزے رکھے ؛ کیوں کہ روزہ رکھنے سے شہوت مغلوب ہوتی ہے۔

(3) ایسی غذا ئیں استعمال نہ کرے ، جس سے شہوت میں اضافہ ہوتا ہو۔

(4)  غلط ماحول اور خیالات سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرے، اپنے آپ کو مصروف رکھے، حتی الامکان تنہائی سے احتراز کرے، اور جہاں تنہائی ناگزیر ہو  وہاں کم سے کم وقت گزارنے کی عادت اور ترتیب بنائے۔

إعلاء السنن (11/263) میں ہے:

"قال المؤلف: دلالة الحديث علي الباب ظاهرة من حيث أن المستمني قد توعد والوعيد لايكون إلا على ترك الواجب".

رد المحتار ( 1 / 160)   میں ہے:

"استدل (الزيلعي شارح الكنز) على عدم حله بالكف بقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية، وقال: فلم يبح الاستمتاع إلا بهما: أي بالزوجة والأمة اهـ  فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما اهـ قلت: فإن لم يوجد سند الأحاديث محتجًّا به فلايضر المستدل، فإن الدعوي ثابتة بالقرآن المجيد، وجعله صاحب الدر المختار مكروهًا تحريمًا".

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (1/ 323) میں ہے:

"والاستمناء بالكف على ما قاله بعضهم، وعامتهم على أنه يفسد، ولايحل له إن قصد به قضاء الشهوة؛ لقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] {إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم} [المؤمنون: 6] إلى أن قال {فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون} [المؤمنون: 7] أي الظالمون المتجاوزون فلم يبح الاستمتاع إلا بهما، فيحرم الاستمتاع بالكف، وقال ابن جريج: سألت عنه عطاء، فقال: مكروه، سمعت قومًا يحشرون وأيديهم حبالى، فأظن أنهم هم هؤلاء. وقال سعيد بن جبير: عذّب الله أمَّةً كانوا يعبثون بمذاكيرهم".  

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں