بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر سید کا زکاۃ لے کر اس میں سے سید کو دینا


سوال

اگر کوئی غیر سیّد صدقہ یا زکات قبول کرے، پھر کسی سیّد کو اُس میں سے دے دے تو کیا یہ درست ہے یا نہیں؟

صدقے کے گوشت [ یا صدقہ کی  کوئی بھی چیز ]  جو کم مقدار میں ہو؛  اس میں کچھ اور ملاکر (جو زیادہ مقدار میں ہو ) پکایا جائے ،تو کیا اس میں سے سیّد  کھا سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ سید کو زکاۃ اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں ہے،اس  لیے کہ زکاۃ کی ادائیگی کی شرائط  میں سے زکاۃ لینے والا کا سید نہ ہونا بھی ہے، البتہ  غیر سید  (جو مستحق ِ زکاۃ بھی ہو) کو  زکاۃ دینا درست ہے، اور زکاۃ لینے کے بعد وہ  اس کا مالک ہے، جیسے  چاہے اس میں تصرف کرے،  اور  چوں کہ سید کو ہدیہ دیا جا سکتا ہے، لہٰذا  وہ غیر سید بھی  سید کو اپنےاس  مال میں  سے  ہدیہ  دے سکتا ہے(جو  اس کو زکاۃ کی مد ملا تھا)۔

نیز   سید حضرات کو نفلی صدقہ دے سکتے ہیں،  ہاں اگر   صدقہ واجبہ کےلیے     پکے ہوئے کھانے میں  کوئی  دوسرا کھانا ملا  دیا گیا ہو اور وہ  (دوسرا کھانا) غالب  ہو    تو سید شخص اس میں سے کھا سکتا ہے، یا صدقہ واجبہ کا گوشت کسی غیر سید مستحقِ زکات کو مالک بناکر دے دیا گیا اور وہ اس میں مزید گوشت وغیرہ ملاکر پکاتا ہے تو اس میں سید بھی کھاسکتا ہے، کیوں کہ صدقہ واجبہ مستحقِ زکات کو مالک بناکر دینے سے صدقہ ادا ہوگیا، اب اس میں سے سید کے لیے کھانا بطورِ ہدیہ ہوگا۔

«إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد».

 (صحيح مسلم (2/ 754)، رقم الحدیث: (1072)، باب ترك استعمال آل النبي على الصدقة، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

'' (قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة»........... وَفِيهَا عَنْ الْعَتَّابِيِّ أَنَّ النَّفَلَ جَائِزٌ لَهُمْ بِالْإِجْمَاعِ كَالنَّفْلِ لِلْغَنِيِّ وَتَبِعَهُ صَاحِبُ الْمِعْرَاجِ وَاخْتَارَهُ فِي الْمُحِيطِ مُقْتَصِرًا عَلَيْهِ، وَعَزَاهُ إلَى النَّوَادِرِ وَمَشَى عَلَيْهِ الْأَقْطَعُ فِي شَرْحِ الْقُدُورِيِّ وَاخْتَارَهُ فِي غَايَةِ الْبَيَانِ، وَلَمْ يَنْقُلْ غَيْرَهُ شَارِحُ الْمَجْمَعِ فَكَانَ هُوَ الْمَذْهَبَ.

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 265)،فصل دَفْعُ الزَّكَاة إلَى الْأَب وَالْجَدّ أَوْ الو لَدِ وَوَلَدِ وَلَدِهِ، بَابُ مَصْرِفِ الزَّكَاة، کتاب الزکاۃ، الناشر: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں