بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر صاحبِ نصاب شخص کو زکوٰۃ دینا


سوال

ایک مولوی صاحب ہیں، جو ایک مدرسہ میں پڑھاتے ہیں، مدرسہ کی طرف سے انہیں رہائش بھی ملی ہوئی ہے ،انہیں ماہانہ چھ یا سات ہزار تنخواہ ملتی ہے اور باقی کمائی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں اور صاحبِ نصاب بھی نہیں ہے ، لیکن والد کی طرف سے میراث میں ایک مکان رہ گیا ہے جو کہ مشترک ہے اور والدہ بھی حیات ہےجو اس گھر میں رہائش پذیر ہے  اور مکان  میں جو فلیٹ ہے اس کا کرایہ بھی آتا ہے اور وہ کرایہ والد ہ گھر میں خرچ کرتی ہے اور یہ مکان ابھی مشترک ہے اور مشاع ہے جس میں کسی کا حصہ متعین نہیں ہے اور نہ تقسیم کیا گیا ہے ۔

(1)اب پوچھنا یہ ہے کہ کیااس جائیداد یعنی مکان کی وجہ سے یہ آدمی صاحبِ نصاب شمار ہوگا یانہیں ؟

(2)ا س کو زکوٰۃ دینا جائز ہوگا یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں وہ مکان جس میں مذکورہ شخص نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے، وہ ذاتی نہیں، بلکہ مدرسہ کی طرف سے رہائش کے لیے دیا گیا ہے اور والد کے متروکہ مکان میں والدہ صاحبہ نے  رہائش اختیار کی ہوئی ہے ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کا حصہ متعین کیا گیاہے تو اس  متروکہ گھر کی وجہ سے مذکورہ شخص صاحبِ نصاب شمار نہیں ہوگا۔

(2)زکوٰۃ دینے یا نہ دینے کا مدار مستحق ہونے یا نہ ہونے پر ہے ،لہذا  اگر مذکورہ شخص سید بھی نہیں ہے اور صاحبِ نصاب بھی نہیں ہے یعنی اس کے پاس    سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ  چاندی یا اس کے بقدر  نقدی  یا  ضرورت سے زائد اشیاء ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کی مقدار میں نہیں ہیں تو اس صورت میں  اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے اور اسے زکوٰۃ ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب ‌فارغ ‌عن ‌حاجته الأصلية من أي مال كان(قوله: ‌فارغ ‌عن ‌حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال(قوله: ‌فارغ ‌عن ‌حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قالوعند أبي يوسف لا يحل وكذا لو له كرم لا تكفيه غلته۔۔۔۔۔وفيها سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى وعندهما لا يحل اهـ ملخصا"

(کتاب الزکوٰۃ ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر،ج۔۲،ص۔۳۴۷،ط۔سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں