اگر مدرسہ میں ایک بھی طالب علم کا قیام و طعام نہ ہو صرف مقامی بچے ہوں تو کیا مدرس کی تنخواہ کے لیے اور مدرسے کے کراۓ کے لیے اور سفیر کی تنخواہ کے لیے مدرسہ کے نام پر چندہ کرنا جائز ہے؟ اور چندے میں سے مدرس کو تنخواہ دینا اور سفیر کو تنخواہ دینا اور مدرسہ کا کرایہ دینا جائز ہے ؟
واضح رہے کہ ایسا ادارہ جہاں مستحق طلبہ زیر تعلیم اور رہائش پذیر ہوں، اور مدرسہ کے ذمہ داران پوری امانت داری کے ساتھ زکوة کی رقم مالکانہ تصرف و اختیار کے ساتھ مستحق طلبہ میں تقسیم کرتے ہوں، تو ایسے ادارہ میں زکوة و صدقات واجبہ دینا جائز ہوتا ہے، البتہ اگر کسی ادارہ میں مستحق طلبہ زیر تعلیم نہ ہوں، تو اس ادارہ میں زکوة و صدقات واجبہ دینے سے زکوة و صدقات واجبہ ادا نہیں ہوتے، نیز زکوة و صدقات واجبہ کی رقم سے اساتذہ کی تنخواہیں دینا، یا سفیر کو جمع شدہ چندہ سے کچھ فیصد دینا، یا جگہ کا کرایہ دینا و دیگر اخراجات کرنا جائز نہیں، اور نہ ہی ایسا کرنے سے زکوة ادارہ ہوتی ہے، البتہ زکوة کے علاوہ نفلی صدقات سے اساتذہ کی تنخواہیں، اور ادارہ کے دیگر اخراجات کا انتظام کرنا جائز ہوتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."
( كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ١ / ١٧٠، ط: دارالفكر)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
" ولو دفعها المعلم لخلیفته إن کان بحیث یعمل له لو لم یعطه صح، و إلا لا
(قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض ط."
( كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، فروع في مصرف الزكاة، ٢ / ٣٥٦، ط: دار الفكر )
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" و لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين، ولا يشترى بها عبد يعتق، ولا يدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي".
( كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٨، ط: دار الفكر )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310100215
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن