بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرقانونی زمین پر گھر بنانے کی صورت میں اس کی ملکیت کا حکم


سوال

ہمارےدادا مرحوم کراچی میں ایک جگہ رہائش پذیر تھے،جو قانونی طور پر ان کی ملکیت نہیں تھی(یعنی حکومت کی ملکیت تھی)،بلکہ پاکستان بننے کے بعد وہ اس جگہ آکر رہائش پذیر ہوگئے تھے، ان کے بعد میرے والدین اور میرے بڑے تین بھائی اسی گھر میں رہتے رہیں، اس دوران حکومت نے کچھ نہیں کیا، بعدازاں  بھائی لوگ اپنےذاتی  گھروں میں منتقل ہوگئے،اب تیرہ سال سے میں جس کمرہ میں رہائش پذیرہوں، تعمیری خرابی کی وجہ سےمیں نے اس کی اصلاح کرانی چاہی، لیکن ایک بھائی نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ یہ بڑے بھائی عبدالصمد کا کمرہ ہے، حالانکہ عبدالصمد بھائی 1988ء میں ہی اپنے ذاتی گھر منتقل ہوگئے تھے،اب سوال یہ ہے کہ:

1۔یہ گھر دادا  او روالدکے بعد کس کی ملکیت ہے؟

2۔غیر قانونی زمین میں میراث جاری ہوتی ہےیا نہیں؟

3۔کیا اس کی خرید وفروخت جائز ہے یا نہیں؟

4۔کیا کوئی دوسرا بھائی ،مجھ سے یہ کمرہ خالی کروانے کا کوئی حق رکھتا ہے یا نہیں؟

واضح رہے کہ حکومت نے یہ زمین ہمارے دادا یا والد کو نہیں دی تھی، بلکہ انہوں نے بلا اجازت اس پر تعمیر کی تھی۔

جواب

1،2۔صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ زمین حکومت کی  ملکیت ہے؛ لہذا اس کو سائل کے دادا مرحوم یا والد مرحوم کےمیراث کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا،  البتہ اس پر سائل کے دادا نے جو تعمیر کی ہے، وہ سائل کے دادا کی ملکیت ہےاوراب ان کے انتقال کے بعد، یہ تعمیر یااس کی قیمت ان کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی، شرعی تقسیم کے بعد جس کے حصہ میں تعمیر کا جو حصہ آجائے وہ اس کا مالک بن جائے گا۔

واضح رہے کہ یہ تعمیر چوں کہ حکومت کی اجازت کے بغیر ہوئی ہے؛ لہٰذا حکومت کو اس کے گرانے کا اختیار ہوگا۔

3۔مکان کی زمین چوں کہ حکومت کی ملکیت ہے؛ لہٰذا اس کی زمین کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے، البتہ اس کی تعمیر چوں کہ سائل کے دادا مرحوم کی ہے؛ لہٰذا ان کے ورثاء، باہمی رضامندی سے اس کو فروخت کرسکتے ہیں، ؛لیکن فروخت کرتے وقت خریدار کو اس سے مطلع کرنا لازم ہوگا کہ یہ تعمیر غیر قانونی جگہ پر ہے اور کسی بھی وقت حکومت اس کو گراسکتی ہے۔

4۔مذکورہ تعمیرچوں کہ دادا مرحوم کے تمام ورثاء میں مشترک ہے، لہٰذا جب تک شرعی تقسیم نہیں ہوگی، تمام ورثاء اس کے ہر ہر جزء میں شریک رہیں گے، اور کسی شریک کا کسی خاص کمرے وغیرہ کا دعوٰی کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"ثم اعلم أن أراضي بيت المال المسماة بأراضي المملكة وأراضي الحوز إذا كانت في أيدي زراعها لا تنزع من أيديهم ما داموا يؤدون ما عليها، ولا تورث عنهم إذا ماتوا، ولا يصح بيعهم لها ولكن جرى الرسم في الدولة العثمانية أن من مات عن ابن انتقلت لابنه مجانا، وإلا فلبيت المال...الخ."

(کتاب الجھاد، باب العشر والخراج والجزية، 4/180، ط: سعید)

مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"باقی اراضی متروکہ جن کی بیع یا ہبہ ثابت نہیں یا مکمل نہیں، وہ سب اراضی بیت المال میں داخل ہیں، جن میں حکومتِ پاکستان کو مِن جملہ  دوسرے اختیارات کے یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ اہلِ حاجت میں تقسیم کردے۔"

(اسلام کا نظامِ اراضی، ص: 138، ط: دارالاشاعت)

اسی کتاب میں چند سطور قبل حضرت فرماتے ہیں:

"حکومتِ پاکستان ایسے اموال غریبوں ، محتاجوں، یتیموں، بیواؤں اور دینی اور ملکی خدمات کرنے والوں کو دے سکتی ہے۔

اگر ایسے لوگوں نےاموالِ مذکورہ میں سے کسی چیز پر بغیر اجازتِ حکومت کے تصرف کرلیا تو ضابطہ کے رو سے وہ بھی درست نہیں ، لیکن اگر حق اور حیثیت سے زیادہ کا سامان نہیں ہے تو امیدِ معافی ہے۔"

(اسلام کا نظامِ اراضی، ص:137 ۔ 138، ط: دارالاشاعت)

الدر مع الرد میں ہے:

"(ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك.

وفي الرد: (قوله ‌عمر ‌دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ وفيه بنى المتولي في عرصة الوقف إن من مال الوقف فللوقف، وكذا لو من مال نفسه، لكن للوقف ولو لنفسه من ماله، فإن أشهد فله وإلا فللوقف...الخ."

(کتاب الخنثٰی، مسائل شتٰی، 6/747، ط: سعید)

مجلۃ الأحكام العدليۃ میں ہے:

"تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح."

(‌‌الكتاب العاشر الشركات،الباب الأول في بيان شركة الملك، الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،المادة: 1073، ط: نورمحمد كتب خانه)

الدر مع الرد میں ہے:

"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام...الخ."

(كتاب البيوع، باب خيار العيب، 5/47، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں