عرض یہ ہے کہ سگریٹ کی تجارت جائز ہے تو اس کا نفع بھی لازمی جائز ہوگا، اصل بات یہ ہے کہ عمرہ پر یا کسی باہر ملک میں غیر قانونی طریقہ سے یا رشوت دے کر سگریٹ لے کر جاتے ہیں اور اس سے جو پیسے کماتے ہیں کیا وہ کمائی حلال ہے یا نہیں؟ عام طور پر پاکستان میں تو سگریٹ کا کاروبار جائز ہے اور اس سے نفع کمانا بھی جائز ہے، مگر اس طرح غیر قانونی طور ملک سے باہر سگریٹ لے کر جانا اور اس سے نفع کمانا حلال ہے یا نہیں؟ اس کی وضاحت فرمادیں ۔
واضح رہے حج وعمرہ کے سفر پر جاتے ہوئے تجارت کی غرض سے سامان ساتھ لے جانا جائز ہے، البتہ دونوں ممالک کے قوانین کی رعایت ضروری ہے، غیرقانونی اشیاء لے جانا جائز نہیں،کیوں کہ اس عمل میں قوانین کی خلاف ورزی کرنی پڑتی ہے،جب کہ کسی بھی جائز معاہدے کی خلاف ورزی شریعت میں ممنوع ہے،پھر مزید یہ کہ ان ریاستی قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے مزید بہت سے منکرات بھی لازم آتے ہیں،مثلاً اکثر اوقات ان معاملات میں جھوٹ رشوت،اور دیگر برے کاموں کا سہارا لیا جاتا ہے اور پکڑے جانے والےمال کو کلئیر کروانے کے لیے رشوت بھی دینی پڑتی ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے،نیز مال کے علاوہ اپنی عزت اور جان کو بھی خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے، اور شریعت نے اپنے آپ کو ذلت و رسوائی میں ڈالنے سے منع کیا ہے،اس لیے مذکورہ مفاسد کے پیشِ نظر ایسے کاموں سےبہر صورت اجتناب ضروری ہے، البتہ اگر کسی نے اس طریقے سے کوئی نفع کمالیا تو وہ نفع جائز ہوگا۔
قرآن مجید میں ہے:
"وَأَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔولًا(سورۃ الاسراء 34)
"ترجمہ: اور عہد (مشروع) کو پورا کیا کرو بے شک (ایسے) عہد کی باز پرس ہونے والی ہے۔"
تفسیر قرطبی میں ہے:
"ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة وأحسنوا إن الله يحب المحسنين
والتهلكة (بضم اللام) مصدر من هلك يهلك هلاكا وهلكا وتهلكة، أي لا تأخذوا فيما يهلككم، قاله الزجاج وغيره. أي إن لم تنفقوا عصيتم الله وهلكتم. وقيل: إن معنى الآية لا تمسكوا أموالكم فيرثها منكم غيركم، فتهلكوا بحرمان منفعة أموالكم۔۔۔۔ وقال الطبري: قوله" ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة" عام في جميع ما ذكر لدخوله فيه، إذ اللفظ يحتمله".
(سورة البقرة، ج:2، ص:363، ط: دار الكتب المصرية)
کفایت المفتی میں ہے:
"سگریٹ اور تمباکو کی تجارت جائز ہے اور اس کا نفع استعمال میں لانا حلال ہے۔"
(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:9، ص:148، ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101850
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن