بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مستحق کو مستحق زکات سمجھ کر زکات کی رقم دی گئی تو لینے والے اور دینے والے کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال

اگر کوئی شخص تحری کے بعدظن غالب کی بناء پر غیر مستحق کو زکوٰۃ دے دے تو زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ اس غیر مستحق کو زکوٰۃ کی رقم لیتے وقت زکوٰۃ کا علم نہیں تھا، بلکہ اس نے یہ سمجھا کہ یہ ہدیہ کی رقم ہے، اور اس نے ہدیہ سمجھ کر اس رقم پر قبضہ کر کے استعمال بھی کرلیا، تو اب اس غیر مستحق شخص کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ کیا وہ شخص استعمال شدہ زکوٰۃ کی رقم کو نکال کر معطی کو واپس کرے گا ؟ یا واپس کرنا ضروری نہیں ہے ؟ اگر رقم استعمال نہیں کی تھی تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا ؟ نیز اگر زکوٰۃ رقم نہ ہو، بلکہ اشیاء ہوں تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا ؟ 

جواب

تحری کے بعد غلبہ ظن کی بنیاد پر غیر مستحق کو مستحقِ زکات سمجھ کر اگر زکات کی رقم دی گئی، اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مستحقِ زکات نہیں ہے تو ادا کرنے والے کی زکات ادا ہوجائے گی، لیکن لینے والے کو جب معلوم ہوجائے کہ جو رقم اس نے وصول کی ہے وہ زکات کی رقم ہے تو اس پر لازم  ہوتا ہے کہ (اگر بعینہ وہی مال موجود ہو تو وہ، اور اگر خرچ کیا ہو تو اس کی مثل) یا تو زکات دینے والے کو واپس کرے، یا بلا نیتِ ثواب اس کو صدقہ کرے، خواہ اس نے ہدیہ سمجھ کر وصول کی ہو یا زکات سمجھ کر، خواہ وہ نقدی کی شکل میں ہو یا سامان کی شکل میں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(دفع بتحر) لمن يظنه مصرفا ...إن بان غناه أو كونه ذميا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا) يعيد .

ولا يسترد في الولد والغني وهل يطيب له؟ فيه خلاف، وإذا لم يطب قيل يتصدق وقيل يرد على المعطي. اهـ."

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة، ج:2، ص:353، ط:سعيد)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"لا يحل لمن ليس من أهل الزكاةإجماعا،فإن أخذها فلم تسترد منه فلا تطيب له، بل يردها أو يتصدق بها؛ لأنها عليه حرام."

(مصطلح:زكاة، حكم من اخذ الزكاة وليس من اهلها، ج:23، ص:333، ط:دار السلاسل)

الاختیار فی تعلیل المختار میں ہے:

"الملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق ‌به، ولو صرفه في حاجة نفسه...إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب الغصب، ج:3، ص:61، ط:مطبعة الحلبي)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

’’بعد تحقیق کے اگر غلبۂ ظن یہ ہو کہ یہ مصرف ہے، اور زکات وغیرہ صدقات کا مستحق ہے، اور دے دیا تو زکات ادا ہوجاتی ہے، اور زکات دینے والے کا ذمہ بری ہوجاتا ہے، البتہ لینے والے کے لیے جائز نہیں،۔۔۔اس کو چاہیے کہ یا تو اس کو خیرات کر دے ،یا واپس کر دے‘‘۔

(کتاب الزکات، ج:3، ص:375، ط:مشتاق پریس لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں