بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غير مسلم كو سلام كرنا اور ان كے سلام كا جواب دينے کا حکم


سوال

ہم غیر مسلموں کو سلام کس طرح کرسکتے ہیں؟ان کے سلام کا جواب کس طرح دیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مسلمان کو چاہیے کہ وہ ابتداءً غیر مسلم کو سلام نہ کرے،البتہ اگر کسی موقع پر اس کی ضرورت ہو تو مخاطب کو متعین کیے بغیر عمومی الفاظ میں سلام کے الفاظ کہے جائیں جیسے ’’اَلسَّلَامُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ‘‘،"السلام علیکم" سے ان کو سلام کرنا جائز نہیں ہے،  نیز اگر غیر مسلم کسی مسلمان کو سلام کرے تو جواب میں صرف"وعلیک" پر اکتفا کیا جائے۔پور اجواب یعنی "وعلیکم السلام" کہنا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فلايسلم ابتداءً على كافر لحديث: «لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام، فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه». رواه البخاري ... ولو سلم يهودي أو نصراني أو مجوسي على مسلم فلا بأس بالرد،  (و) لكن (لايزيد على قوله: وعليك)، كما في الخانية.

 (قوله: فلا بأس بالرد) المتبادر منه أن الأولى  عدمه ط لكن في التتارخانية: وإذا سلم أهل الذمة ينبغي أن يرد عليهم الجواب، وبه نأخذ.

(قوله: ولكن لايزيد على قوله: وعليك) لأنه قد يقول: السام عليكم أي الموت كما قال بعض اليهود للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال له: "وعليك "، فرد دعاءه عليه."

(کتاب الحظر و الاباحۃ۔ فصل فی البیع ج نمبر 6 ص نمبر 412، ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100864

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں