بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم قرض دار کا بینک سے قرضہ لے کر مسلمان قرض خواہ کا قرض ادا کرنے کا حکم


سوال

 میری ایک دکان ہے ،اس میں سے میں نے ایک غیر مسلم گاہک کو پانچ لاکھ روپے کا مال  بیس دن کی مہلت پر ادھار دیا ،اب ۲۰ دن پورے ہونے کے بعد بھی وہ پیسے نہیں دے پا رہا ہے، تو کیا ایسی صورت  میں میں اپنا حق حاصل کرنے کے لیے گاہک کو بینک سے لون لینے پر مجبور کروں تو وہ لون والے پیسے میرے لیے لینا جائز ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ  جب تک کوئی شخص اسلام قبول نہ کرے اس وقت تک وہ اسلام کے فروعی اَحکام کا مکلف نہیں ہے،اس لیے ایسا شخص  "ربا" (سود) کی حرمت کا  بھی مکلف نہیں ہے،لہٰذا کوئی ایسا شخص اگر بینک سے سود لے کر کسی مسلمان قرض خواہ کا قرض ادا کرے تو اس مسلمان کے لیے وہ رقم استعمال کرنا جائز ہے۔ 

مذکورہ بالاتفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل کو غیر مسلم قرض دار،  بینک سے سود  پر قرض لے کر  اسے  اس کی ادھار رقم لوٹائے تو سائل کے لیے وہ رقم استعمال کرنا جائز ہے، لیکن  سائل کے لیے اسے بینک سے سودی قرض لینے پر مجبور کرنا درست نہیں۔

الاحکام  في أصول الأحکام  للآمدي    میں ہے:

"فلا تكليف قبل الإيمان، و هو المطلوب."

( جلد ۱ ، ص : ۱۴۵ ط : المکتب الاسلامی بیروت )

کفایت المفتی میں ہے :

"( سوال ) ایک ہندو ٹھیکدار نے جس کا واحد ذریعہ معاش خنزیر کا گوشت بیجنا ہے، ایک خوشی کی تقریب میں لڈو بنوا کر بازار کے عام ہندو مسلمان کو تقسیم  کیے ہیں،  کیا ایسی حرام کمائی کی مٹھائی کھانا مسلمانوں کو جائز ہے  ؟ 

( جواب ) جس شخص کی کمائی حرام ہو و ہ اگر کسی دوسرے شخص سے قرض لے کر مسلمانوں کو کوئی چیز تقسیم کرے تو اس قرض لی ہوئی چیز کو لےلینا اور استعمال کرنا جائز ہے، لیکن ایسے شخص سے جو خنزیر کی بیع و شراء کرتا ہے،  مسلمانوں کو علیحدگی کرنی  چاہیے اور اس کی چیزیں مسلمانوں کو استعمال کرنی بہتر نہیں،  یہ حکم مسلمانوں کا ہے،  مگر سوال میں مذکور ہے کہ وہ شخص ہندو ہے تو ہندوؤں کے مذ ہب میں اگر بیعِ خنزیر جائز ہے تو مسلمانوں کو ان کی تحصیلِ معاش بذریعہ بیعِ  خنزیر پر لحاظ کرنا ضروری نہیں ۔ " 

( جلد ۹ ،ص : ۱۳۱ ط: دار الاشاعت ) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101951

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں