بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ


سوال

غیر مسلم ممالک کی مصنوعات خریدنے اور استعمال کا حکم کیا ہے؟ جبکہ ایسے ممالک مسلمانوں پر ظلم و تشدد میں دشمنوں کی معاونت نہ کرتے ہوں ۔اگر کچھ مصنوعات مسلم ممالک میں نہ پائی جاتی ہوں یا پائی جاتی ہوں تو معلوم نہ ہوں یا مہنگی ہوں تو ایسی صورت میں غیر مسلم مصنوعات خریدنے اور استعمال کرنے کا حکم  کیا ہے؟انڈیا کی مصنوعات خریدنے اور استعمال کرنے کا حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عام حالات میں غیر مسلم حربی کفار کے ساتھ اسلحہ اور حربی سازوسامان کی خرید وفروخت ، تجارت،ملازمت اور صنعت وحرفت کے معاملات کرنا اصولاً جائز ہے ،سوائے ایسی حالت میں کہ جب  ان معاملات سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو، لہٰذا جو کافر ممالک یا قومیں مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار نہ ہوں یا ان کو نقصان نہ پہنچاتی ہوں  ان کی جائز و حلال  مصنوعات  استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

اس کے برخلاف جن غیر مسلم ممالک میں  اسلامی شعائر یا دینی مقدّسات کے ساتھ توہین آمیزواقعات   پیش آتے ہیں یا مسلمانوں پر ظلم کیا جاتا ہےتو  ان کا اقتصادی بائیکاٹ کرنا ان کی اصلاح یا توہین آمیز اقدامات کے انسداد کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوتاہے، اس لیے مذہبی جرائم پیشہ ممالک کو ان کے  گستاخانہ جرائم سے روکنے کے لیے ان کے ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ  کرنا دینی مصلحت کا تقاضاہے۔ 

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي ‌معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية."

(کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشرفی الکسب،ج5،ص348،ط؛دار الفکر)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ولم نبع) في الزيلعي يحرم أن نبيع (منهم ما فيه تقويتهم على الحرب) كحديد وعبيد وخيل (ولا نحمله إليهم ولو بعد صلح) ؛ لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن ذلك وأمر بالميرة وهي الطعام والقماش فجاز استحسانا.

(قوله ولم نبع إلخ) أراد به التمليك بوجه كالهبة قهستاني، بل الظاهر أن الإيجار والإعارة كذلك أفاده الحموي؛ لأن العلة منع ما فيه تقوية على قتالنا كما أفاده كلام المصنف (قوله يحرم) أي يكره كراهة تحريم قهستاني (قوله كحديد) وكسلاح مما استعمل للحرب، ولو صغيرا كالإبرة، وكذا ما في حكمه من الحرير والديباج فإن تمليكه مكروه؛ لأنه يصنع منه الراية قهستاني (قوله وعبيد) ؛ لأنهم يتوالدون عندهم فيعودون حربا علينا مسلما كان الرقيق أو كافرا بحر (قوله ولا نحمله إليهم) أي لبيع ونحوه فلا بأس لتاجرنا أن يدخل دارهم بأمان ومعه ‌سلاح لا يريد بيعه منهم إذا علم أنهم لا يتعرضون له وإلا فيمنع عنه كما في المحيط قهستاني، وفي كافي الحاكم لو جاء الحربي بسيف فاشترى مكانه قوسا أو رمحا أو فرسا لم يترك أن يخرج، وكذا لو استبدل بسيفه سيفا خيرا منه، فإن كان مثله أو دونه لم يمنع، والمستأمن كالمسلم في ذلك إلا إذا خرج بشيء من ذلك فلا يمنع من الرجوع به. اهـ. نهر (قوله ولو بعد صلح) تعميم للبيع والحمل قال في البحر؛ لأن الصلح على شرف الانقضاء أو النقض (قوله فجاز استحسانا) أي اتباعا للنص، لكن لا يخفى أن هذا إذا لم يكن بالمسلمين حاجة إلى الطعام فلو احتاجوه لم يجز."

(کتاب الجہاد،ج4،ص134،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں