بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم کے ساتھ کاروبار کا حکم


سوال

غیر مسلم کے ساتھ کاروبار کرنا جائز ہے، آ  ج  کل کال سینٹر پر کام ہو رہا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ غیر مسلم سے دوستانہ ، دلی تعلق اور ان کی مذہبی مجالس اور معاملات میں شرکت سے شریعت نے منع کیاہے، باقی تجارتی معاملات ان کے شرعی احکامات کو مدنظر رکھ کر کیے جائیں تو نہ صرف تجارتی معاملات غیر مسلم کے ساتھ جائز ہیں، بلکہ اسلامی اخلاق کے ذریعے ان کی تبلیغ اور اسلام کی طرف راغب کرنے کی بھی تعلیم ہے۔ 

لہذا صورت ِ مسئولہ میں کسی غیر مسلم کے ساتھ کاروبار کرنا  شرعاً جائز ہے بشرط یہ کہ  مسلمان کا دینی لحاظ سے بھی کوئی نقصان نہ ہو اور مسلمانوں کی طاقت وقوت بھی اس سے متاثر نہ ہوتی ہو اور کاروبار میں شرعی اصولوں کالحاظ رکھاجاتاہو۔

باقی کال سینٹر  پر کام  کرنے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ کال سینٹر   کسی ادارے کے ایسے انتظام وبندوبست   کو کہا جاتا ہے جہاں کسٹمر  اپنی شکایات کے حل یا معلومات کے حصول کے لیے فون کرے اور نمائندہ اس کو سہولت فراہم کرے؛ لہذا جو   کال سینٹر ز کسی ادارے اور کمپنی میں شکایت  سننے یا معلومات وغیرہ فراہم کرنے کے  لیے قائم ہیں ، تو اس میں ملازمت جائز ہونے یا نا جائز ہونے کا مدار  وہاں کے کام پر ہوگا، اگر اس ادارے یا کمپنی کا کام جائز کام ہو تو ملازمت کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔اسی طرح  جو    کال سینٹر   ز مستقل   قائم ہیں  اور  بیرون ملک مختلف کمپنیوں  کی اشیاء کی تشہیر کرکے اس کو فروخت کرتے ہیں،  اگر یہ  کام جائز اشیاء کا ہو، اور اس کام میں کوئی اور  شرعی خرابی نہ پائی جائے تو کمیشن پر  کام کرنا جائز ہے، لیکن اگر اس کام میں جھوٹ بولنا پڑتا ہو، کال سینٹر والے اپنے آپ کو اسی ملک کا ظاہر کرتے  ہوں جس ملک میں کمپنی ہوتی ہے، اور اپنا نام بھی ان ہی ملکوں کے رہائشیوں کی طرح بتاتے ہوں؛ تاکہ خریدار  یہ سمجھے کہ  یہ ہمارے  ملک میں ہی بیٹھ کر ہم سے سودا کررہے ہیں ، تو  اس طرح جھوٹ   بول کر کال سینٹر کا کام  کرنا جائز نہیں  ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية۔"

(کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی اہل الذمۃ،ج:۵،ص:۳۴۶،دارالفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"کفار سے دوستانہ تعلق اور دلی محبت حرام ہے ،البتہ  دنیوی معاملات  میں لین دین  وغیرہ بضرورت درست ہے ۔"

(باب الموالات مع الکفاروالفسقۃ،ج:۱۹،ص:۵۴۶،فاروقیہ)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسدًا؛ لكثرة التعامل و كثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(کتاب الإجارة، باب الاجارة الفاسدة،  مطلب في أجرة الدلال ،ج:۶،ص:۶۳،ط. سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے :

"و على هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لايصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعًا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح ... وكذا لو استأجر رجلًا ليقتل له رجلًا أو ليسجنه أو ليضربه ظلمًا وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلايكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا، فإن كان ذلك بحق بأن استأجر إنسانًا لقطع عضو جاز."

(كتاب الإجارة،فصل في أنواع شرائط ركن الإجارۃ،ج:۴،ص:۱۸۹،ط. دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں