بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم کے ساتھ کھیتی باڑی میں شرکت یا مزارعت کی صورت میں مسلمان پر کتنا عشر لازم ہوگا؟


سوال

 میں کھیتی کرتا ہوں اور میرے ساتھ آدھے منافع پہ کسان بھی ہے،اب مثال کے طور پر  ایک گنے کے کھیت پر ہم نے مشترکہ کھاد وغیرہ کی مد میں 50000 مل کے خرچہ کیا جب فصل کٹائی کا ٹائم آیا تو مشترکہ 15000 کٹائی اور 20000 کرایہ لگا۔۔ فصل کی رقم 250000 ٹوٹل بنی، جس میں سے کرایہ کٹ کے ہمیں 230000 ملے۔ اب اس میں سے کٹائی کی مزدوری 15000 ہمیں دینی ہے باقی 215000 بچ گئے، اس میں آدھا کسان کا ہے جوکہ غیر مسلم ہے۔ اب اس میں مجھے کتنا عشر دینا ہے؟ برائے مہربانی وضاحت کے ساتھ جواب عرض کریں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اور اس کا غیر مسلم شریک اگر کسی تیسرے آدمی سے زمین ٹھیکہ (کرایہ)  پر لے کر کھیتی باڑی کرتے ہیں تو ان کا اس طرح معاملہ کرنا (کہ دونوں برابر خرچہ کریں گے اور پیداوار بھی دونوں میں برابری کے ساتھ مشترک ہوگی) شرعاً جائز ہے، لیکن اگر زمین سائل کی ہے تو اس صورت میں سائل کے لیے اپنے غیر مسلم شریک کے ساتھ سوال میں مذکور طریقے سے کھیتی باڑی کرنا شرعاً ناجائز ہے، ایسی صورت میں اس معاملے کی صحیح صورتیں تین ہیں۔

1) زمین والے کی طرف سے بیج ہو اور عمل اور خرچ دوسرے شخص کا ہو۔

2) زمین کی والے کی صرف زمین ہو اور باقی سب چیزیں (بیج، عمل اور خرچ) دوسرے شخص کی ہوں۔

3) بیج اور خرچ زمین والے کی طرف سے ہو اور دوسرے شخص کا صرف عمل ہو۔

یہ تین صورتیں جائز ہیں، ان کے علاوہ سب صورتیں ناجائز ہیں۔

لہذا اگر زمین سائل کی ہے تو مذکورہ تین صورتوں میں سے کسی  صورت کو اختیار کیا جائے، زمین والے پر عمل کی شرط نہ لگائی جائے، بعد میں از خود اگر وہ عمل کرتاہے تو اس سے معاملہ فاسد نہیں ہوگا۔

باقی زمین خواہ تیسرے شخص کی ہو یا سائل کی، دونوں صورتوں میں سائل پر پیداوار میں سے صرف اپنے حصے کا عشر نکالنا ضروری ہوگا۔

نیز واضح رہے کہ پیداوار میں سے اخراجات منہا کیے بغیر عشر نکالنا ضروری ہے، لہذا سائل کے حصے میں جتنی پیداوار آئے سائل کے لیے اس میں سے اپنے حصے کے اخراجات منہا کیے بغیر اس کا دسواں حصہ (اگر زمین کو بارانی پانی یا نہری پانی سے سیراب کیا گیا ہو) یا بیسواں حصہ (اگر اسے کنویں یا ٹیوب ویل سے سیراب کیا گیا ہو) نکالنا ضروری ہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"(فشركة الملك) أن يشترك رجلان في ملك مال، وذلك نوعان: ثابت بغير فعلهما كالميراث، وثابت بفعلهما، وذلك بقبول الشراء، أو الصدقة أو الوصية. والحكم واحد، وهو أن ما يتولد من الزيادة يكون مشتركا بينهما بقدر الملك."

(کتاب الشرکۃ، ج: 11، ص: 151، ط: دار المعرفۃ)

درر الحکام میں ہے:

"إن نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموال حيث إن الغرم بالغنم."

(الکتاب العاشر: الشرکات، الباب الخامس فی بیان النفقات المشترکۃ، ج: 3، ص: 310، ط: دار الجیل)

مجمع الانھر میں ہے:

"(وإذا كان البذر والأرض لأحدهما والعمل والبقر للآخر أو) كانت (الأرض لأحدهما والبقية) من العمل والبذر والبقر (للآخر أو) كان العمل (لأحدهما والبقية) من الأرض والبذر (للآخر صحت) المزارعة في الكل...(وإن كانت الأرض والبقر لأحدهما والبذر والعمل للآخر بطلت) المزارعة؛ لأن رب البذر يصير مستأجرا بالبذر وأنه لا يجوز لكون الانتفاع بالاستهلاك أو يصير مستأجرا للبقر مع الأرض ببعض الخارج وأنه لا يجوز لعدم التعامل وهو ظاهر الرواية وعن أبي يوسف أنه يجوز لما فيه من العادة والقياس يترك به.(وكذا) تبطل (لو كان البذر والبقر لأحدهما والأرض والعمل للآخر) ؛ لأن الشرع لم يرد به (أو) كان (البذر لأحدهما والباقي) وهو العمل والبقر والأرض (للآخر)."

(کتاب المزارعت، ج: 2، ص: 501، ط: دار احیاء التراث العربی)

امداد الفتاوی میں ہے:

"اگر زمین کسی تیسرے شخص کی ہو تب تو یہ شرکت ہے اور اس صورت میں ہرچیز دونوں کی ہونی چاہیے اور اگر زمین کسی ایک کی ہے تو صرف تین صورتیں اتفاقاً اور ایک صورت اختلافاً جائز ہے، باقی ناجائز ہیں، (1)زمین اور تخم ایک کا ہو اور بیل اور عمل ایک کا۔ (2)زمین ایک کی اور عمل اور بیل اور تخم ایک کا۔ (3)زمین اور تخم اور بیل ایک کا اور عمل ایک کا۔ (4) زمین اور بیل ایک کا اور تخم اور عمل ایک کا، اس میں اختلاف ہے۔ کذا فی الہدایہ۔"

(کتاب الزراعۃ، ج: 8، ص: 151، ط: زکریا بک ڈپو انڈیا، الہند)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في المزارعة على قولهما العشر عليها بالحصة...ولا تحسب أجرة العمال ونفقة البقر، وكري الأنهار، وأجرة الحافظ وغير ذلك فيجب إخراج الواجب من جميع ما أخرجته الأرض عشرا أو نصفا كذا في البحر الرائق."

(کتاب الزکوۃ، الباب السادس فی زکوۃ الزرع و الثمار، ج: 1، ص: 187، ط: رشیدیہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يجب العشر عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - في كل ما تخرجه الأرض من الحنطة والشعير والدخن والأرز، وأصناف الحبوب والبقول والرياحين والأوراد والرطاب وقصب السكر والذريرة والبطيخ والقثاء والخيار والباذنجان والعصفر، وأشباه ذلك مما له ثمرة باقية أو غير باقية قل أو كثر هكذا في فتاوى قاضي خان سواء يسقى بماء السماء أو سيحا يقع في الوسق أو لا يقع هكذا في شرح الطحاوي...ما سقي بالدولاب والدالية ففيه نصف العشر، وإن سقي سيحا وبدالية يعتبر أكثر السنة فإن استويا يجب نصف العشر كذا في خزانة المفتين."

(کتاب الزکوۃ، الباب السادس فی زکوۃ الزرع و الثمار، ج: 1، ص: 186، ط: رشیدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں