بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم کو زکوٰۃ دینے کا حکم


سوال

کیا ہم زکوٰۃ کی رقم غریب غیر مسلموں کی مدد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟ خاص طور پر آفات کے انتہائی حالات میں، یعنی طوفان یا سیلاب وغیرہ کے وقت،  جیسا کہ فتویٰ ہے کہ: زکوٰۃ صرف مسلمانوں کو دی جائے۔

جواب

زکوۃ کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ شخص(جس کو زکاۃ دی جارہی ہو) مسلمان ہو، اور زکوۃ کا مستحق ہو ،لہذا غیر مسلم کو زکوٰۃ  کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، البتہ   غیر مسلم اگر ضرورت مند ہوتو نفلی صدقات وغیرہ سے  اس  کی مدد کی جاسکتی ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أما تفسيرها (الزکاۃ) فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."

(کتاب الزکاۃ ، ج:1، ص:170، ط:دارالفکر بیروت)

الدر مع الرد میں ہے:

"(من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه(قوله: من مسلم إلخ) متعلق بتمليك، واحترز بجميع ما ذكر عن الكافر والغني والهاشمي ومولاه والمراد عند العلم بحالهم."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:258، ط:سعيد)

الہدایۃ مع فتح القدیر میں ہے:

"(ولا يجوز أنه يدفع الزكاة إلى ذمي) «لقوله - عليه الصلاة والسلام - لمعاذ - رضي الله عنه - خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» . قال (ويدفع ما سوى ذلك من الصدقة)(قوله لقوله - صلى الله عليه وسلم - لمعاذ إلخ) رواه أصحاب الكتب الستة من حديث ابن عباس قال: قال - عليه الصلاة والسلام - «إنك ستأتي قوما أهل كتاب، فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم، فإن هم أطاعوا لذلك فإياك وكرائم أموالهم واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب» ،(قوله ويدفع لهم) أي لأهل الذمة (ما سوى ذلك) كصدقة الفطر والكفارات، ولا يدفع ذلك لحربي ومستأمن، فقراء المسلمين أحب."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:266، ط:دار الفکر)

کفایت المفتی میں ہے:

"مال زکوٰۃ سے غیر مسلم  محتاجوں، بیواؤں، یتیموں کی امداد کرنا جائز نہیں، صدقات نافلہ ذمی کو دے سکتے ہیں۔"

(کتاب الزکوۃ، ج:۴، ص:۲۸۰، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں