بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم کا قرآنی وظیفہ پڑھنے کا حکم


سوال

میرا ایک مسیحی دوست بے اولاد ہے ،کیا اسے اولاد کے لیے کوئی قرآنی وظیفہ یا اللہ پاک کا نام ورد کرنے کے لیے دیا جا سکتا ہے ،یا اسلام میں اس کی اجازت نہیں ہےتاکہ اس کی مراد بر آئے، اور اللہ پاک اسے ہدایت دے دے ۔

جواب

  واضح رہےکہ غیر مسلموں سے تین طرح کی معاملات کئے جاتے ہیں ،جس کو بیان القران میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے تفصیل سے بیان کیاہے،جس کا حاصل یہ ہے:

" کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں: موالات یعنی دوستی۔ مدارات: یعنی ظاہری خوش خلقی۔ مواساۃ:  یعنی احسان و نفع رسانی۔موالات تو کسی حال میں جائز نہیں۔ اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے:  ایک دفعِ ضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحتِ دینی یعنی توقعِ ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے، اور اپنی مصلحت و منفعتِ مال و جان کے لیے درست نہیں۔ اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب کے ساتھ جائز۔"

(بیان القرآن  :سورۃ ال عمران،آیۃ:28)

مذکورہ تفصیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے،اگر صورت مسئولہ میں سائل کا مسیحی دوست سے موالات یعنی قلبی دوستی  کا تعلق ہے،تو یہ شرعا ناجائز  ہے ،اور اگر یہ مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی ،یا مواسات یعنی احسان ونفع رسانی کے طور پر ہے ،تو یہ شرعا جائز ہے،خصوصاجب مقصود  کافر کی  ھدایت ہو تو یہ بہت خیر کا کام ہے،نیز  صورت مسئولہ میں سائل کا اپنے مسیحی بے اولاد دوست کو قرآنی وظیفہ ،یا اللہ پاک کا نام  ورد کرنے کے لئے دینا  شرعاجائز ہے،البتہ قرانی آیات اگر لکھ کر دے  تو اس میں اس بات کاخیال رہےکہ اس کی طرف سے بے ادبی کا خوف نہ ہو،اورآیات وغیرہ کو خوب کاغذ میں بند کردیا جائے،تاکہ  اس کا ہاتھ  براہ راست آیات سے نہ لگے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"لَّا ‌يَمَسُّهُۥٓ ‌إِلَّا ٱلۡمُطَهَّرُونَ"( النساء،الآیة:79)

الکوکب الدراری میں ہے:

"وقال تعالى " لا يمسه إلا المطهرون " أي لا يجد طعمه ونفعه إلا من آمن بالقرآن أي المطهرون من الكفر ولا يحمله بحقه إلا الموقن بكونه من عند الله المطهر من الجهل لا يجد طعمه ونفعه إلا من آمن بالقرآن ولا يحمله بحقه إلا الموقن لقوله تعالى :مثل الذين حملوا التوراة ثم لم يحملوها كمثل الحمار يحمل أسفارا بئس مثل القوم الذين كذبوا بآيات الله والله لا يهدي القوم الظالمين."

(کتاب التوحید:باب قول الله تعالى قل فاتوا بالتوراة فاتلوھا،224/25،ط:دار إحياء التراث العربي)

المحیط البرهانی میں ہے:

"وإذا قال الكافر من أهل الحرب، أو من أهل الذمة لمسلم: علمني القرآن فلا بأس بأن يعلمه، ويفقهه في الدين؛ علل فقال: لعله يقبل بقلبه؛ قال الله تعالى:وإن أحد من المشركين استجارك فأجره حتى يسمع كلام الله ثم أبلغه مأمنه(التوبة:6) معناه حتى يسمع فيفهم، فيقف على مجلس الإسلام والشريعة، فربما يرغب في الإيمان، وهو معنى قول محمد في الكتاب : لعله يقبل قلبه، وروي أن واحدا من الكفار سمع القرآن فأسلم، وقال: وجدت له حلاوة.قال القاضي الإمام ركن الإسلام علي السغدي: وتعليم الفقه كذلك أيضا؛ لأن في الفقه معالم الدين، وسنن الهدى، فربما يصير ذلك سببا لإسلامه."

(کتاب الاستحسا ن والکراھیۃ،‌‌الفصل السادس عشر في معاملة أهل الذمة،361/5،ط:دار الكتب العلمية -بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويمنع النصراني من مسّه، وجوّزه محمد إذا اغتسل، ولا بأس بتعليمه القرآن والفقه عسى يهتدي.(قوله: ‌ويمنع ‌النصراني) في بعض النسخ الكافر، وفي الخانية الحربي أو الذمي.(قوله: ‌من ‌مسه) أي المصحف بلا قيده السابق.(قوله: وجوزه محمد إذا اغتسل) جزم به في الخانية بلا حكاية خلاف. قال في البحر: وعندهما يمنع مطلقا."

(کتاب الطھارۃ:سنن الغسل،177/1،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101676

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں