بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم جج سے تنسیخِ نکاح کرانے کا حکم


سوال

میری بیٹی کی شادی ہوئی ، کچھ عرصہ بعد معلوم ہو اکہ شوہر  اس پر ظلم وتشدد کرتاہے،اور نان نفقہ نہیں دیتاہے،جس کی وجہ سے میری بیٹی نے اپنے شوہر سے خلع کامطالبہ کیا،لیکن اس نے خلع دینے سے انکار کردیا،میری بیٹی اور اس کے شوہر دونوں کینیڈا میں تھے ،تو میری بیٹی نے وہاں کی عدالت میں تنسیخِ نکاح کے لیے درخواست دے دی ، وہاں کاجج عیسائی تھا، میری بیٹی نے 3/4 مسلمان خواتین کو اس بات پر عدالت میں گواہی کے لیے پیش کیاکہ اس کا شوہر اس پر ظلم وتشدد کرتاہے اور اس کو نان نفقہ نہیں دیتا، عدالت  نے میری بیٹی کادعوٰی اور  اُن خواتین کی گواہی  سننے کے بعد میری بیٹی کے شوہر کو طلب کیا، لیکن شاید وہ ڈر گیااور  کینیڈا چھوڑ کر پاکستان چلاآیا،  جب عدالت کے طلب کرنے پر وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوا تو تین ماہ بعد عیسائی   عدالت نے  تنسیخِ نکاح کافیصلہ  سنادیااب سوال یہ ہے کہ کیایہ تنسیخِ نکاح معتبر ہے یانہیں؟ وہاں کینیڈاکے ایک مسجد کے امام صاحب  نے بھی تصدیق کی ہے کہ یہ تنسیخِ نکاح درست ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیٹی نے شوہر کے ظلم وتشدد  کرنے اور نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر غیرمسلم عدالت میں تنسیخِ نکاح کاجومقدمہ دائر کیااوراُس کے نتیجے میں غیرمسلم جج نے تنسیخِ نکاح کاجوفیصلہ دی تویہ تنسیخِ نکاح معتبر نہیں ہے،سائل کی بیٹی بدستور اپنے شوہر کی نکاح میں ہے؛ اس لیےکہ غیرمسلم جج کوفسخِ نکاح کااختیار شریعتِ مطہرہ نے  نہیں دیاہے، باقی سائل کی بیٹی کاشوہر اگر واقعۃً  سائل کی بیٹی پر ظلم وتشدد کرتاہےاوراُسے نان ونفقہ ادا نہیں کرتا تو اس معاملے کے حل کے لیے اولاً تو سائل یااس کی بیٹی کو چاہیے کہ دونوں خاندانوں کے سمجھ دار اور دیانت دار بڑوں کوبیچ میں بیٹھا کرافہام وتفہیم کے ساتھ اس مسئلہ کوحل کرنےکی کوشش کرے، اگر کوشش کے باوجود بھی مصالحت کی کوئی راہ نہ بن پائے ،اور شوہر ظلم وتشددسے باز نہ آتا ہو اورنہ  ہی نان ونفقہ دیتا ہو ،اور بیوی کےلیے اسی حالت میں عفت وپاک دامنی کے ساتھ رہنا مشکل ہو، جس کی وجہ سے جدائی ناگزیرہو تو ایسی صورت میں بیوی اپنے شوہرسے طلاق کا مطالبہ کرے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ معاملے کو لٹکاکر رکھنے کے بجائے اپنی بیوی کو عزت سے طلاق دے کر آزاد کردے، معاملہ کو لٹکاکر رکھنا اور بیوی کو اذیت دینا شوہر کے لیے جائز نہیں ، تاہم اگرشوہرطلاق نہ دےتوبیوی اپنے مہرکی معافی کے عوض شوہرکوخلع لیے آمادہ کرے ۔

اور اگر نباہ کی بھی کوئی صورت نہ بن پائے اور شوہر طلاق بھی نہ دے اور نہ ہی خلع پر راضی ہو، تو اگر بیوی ابھی پاکستان میں ہےتو اس کوچاہیےکہ کسی مسلمان جج کی عدالت میں شوہر کے ظلم وتشدد کرنےاورنان ونفقہ نہ دینے  کی بنیاد پرفسخِ نکاح کامقدمہ دائرکرے، اس کے بعد عدالت میں شرعی گواہوں (دومرد یاایک مرداور دوعورتوں)کی گواہی کے ذریعے اپنے نکاح کوثابت کرے، اس کے بعداپنے شوہرکے ظلم وتشدداورتعنت یعنی نان ونفقہ نہ دینے  کوشرعی گواہوں (دومرد یاایک مرداور دوعورتوں) کی گواہی کے ذریعے ثابت کرے کہ شوہرظلم وتشددکرتاہے اورنان ونفقہ نہیں دیتاہے اورخودبیوی کے پاس بھی اپنےنان ونفقہ کاکوئی انتظام  نہیں ہے، اس کے بعدعدالت شوہرکو حاضرہونے کاحکم دے گی، اگرشوہرعدالت میں حاضرہوکرظلم وتشددسے بازرہنے ،نان ونفقہ دینے اورگھربسانےپرآمادہ ہوجائے تو ٹھیک ہے ،دونوں کانکاح برقرار رہے گا، اور اگر وہ حاضرنہ ہویاحاضرہوکرظلم وتشددسےبازرہنے اورنان ونفقہ دینے کے لیے تیار نہ ہو تو ان دونوں صورتوں میں عدالت کونکاح فسخ کرنے کااختیار حاصل ہوگا اور فسخِ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

اوراگر بیوی کینیڈامیں ہےاوروہاں کنیڈامیں کوئی مسلمان جج نہیں ہے توپھراُسے چاہیےکہ وہاں کے دین دار مسلمانوں کی پنچائیت یااسلامی مرکز کے  سامنے اپنا مقدمہ پیش کرکے شرعی گواہوں (دومرد یاایک مرداور دوعورتوں ) کی گواہی کے ذریعے اپنے نکاح کوثابت کرے، اس کے بعداپنے شوہرکے ظلم وتشدداورتعنت یعنی نان ونفقہ نہ دینے  کوشرعی گواہوں (دومرد یاایک مرداور دوعورتوں ) کی گواہی کے ذریعے ثابت کرے کہ شوہرظلم وتشددکرتاہے اورنان ونفقہ نہیں دیتاہے اورخودبیوی کے پاس بھی اپنےنان ونفقہ کاکوئی انتظام  نہیں ہے، اس کے بعدوہ پنچائیت یااسلامی مرکز شوہرکو حاضرہونے کاحکم دے گی، اگرشوہرحاضرہوکرظلم وتشددسے بازرہنے ،نان ونفقہ دینے اورگھربسانےپرآمادہ ہوجائے تو ٹھیک ہے ،دونوں کانکاح برقرار رہے گا، اور اگر وہ حاضرنہ ہویاحاضرہوکرظلم وتشددسےبازرہنے اورنان ونفقہ دینے کے لیے تیار نہ ہو تو ان دونوں صورتوں میں اُس پنچائیت یااسلامی مرکز کونکاح فسخ کرنے کااختیار حاصل ہوگا، عدالت یاپنچائیت یااسلامی مرکز کے فسخِ نکاح کا فیصلہ سنا نے کے بعد بیوی اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حاملہ نہ ہو اور اگر حاملہ ہو تو بچے کی پیدائش تک کاعرصہ )گزارکر دوسری جگہ نکاح کرسکے گی،لیکن بیوی کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت سےیک طرفہ خلع حاصل کرے،اگر اس نے عدالت سے یک طرفہ خلع کی ڈگری حاصل کر بھی لی تو یہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہوگا،اُس کا نکاح اپنے شوہر سے ختم نہیں ہوگا۔

حیلۂ ناجزہ میں ہے:

"لیکن اگرکسی جگہ فیصلہ کنندہ حاکم غیر مسلم ہوتواس کافیصلہ بالکل غیر معتبر ہےاس کے حکم سے فسخ وغیرہ ہر گز نہیں ہوسکتا، (لأن الكافرليس بأهل للقضاء على المسلم كماهومصرح في جميع كتب الفقه.)حتٰی کہ اگررودادِ مقدمہ غیرمسلم مرتب کرےاورمسلمان حاکم فیصلہ کرے یابالعکس تب بھی فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔"

(الحیلۃ الناجزۃ،ص: 31، ط: دار الاشاعت)

وفیہ ایضًا:

"وہ حکام جج وغیرہ جوگورنمنٹ کی طرف سے اس قسم کے معاملات میں فیصلہ کااختیار رکھتے ہیں اگر وہ مسلمان ہوں اور شرعی قاعدہ کے موافق فیصلہ کریں تو اُن کاحکم بھی قضائے قاضی کے  قائم مقام ہوجاتاہے اور اگر مسلمان نہ ہوں تواُن کا فیصلہ کالعدم ہےحتٰی کہ اگر کئی ججوں یاممبروں  کی کمیٹی فیصلہ کرے تو اُن سب کامسلمان ہوناشرط ہے اگر ایک جج یاممبر وغیرہ بھی غیرمسلم ہو توشرعًا فیصلہ معتبر نہیں۔

(الحیلۃ الناجزۃ، ص: 171، ط: دارالاشاعت) 

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ولا تصح ولاية القاضي حتى يجتمع في المولى شرائط الشهادة كذا في الهداية من الإسلام، والتكليف، والحرية وكونه غير أعمى ولا محدودا في قذف ولا أصم ولا أخرس."

(كتاب أدب القاضي، ‌‌الباب الأول في تفسير معنى الأدب والقضاء وأقسامه وشرائطه، 306/3، ط: رشيدية)

قرآن مجید میں ہے:

"وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهٖ وَحَكَمًامِّنْ أَهْلِهَآ إِنْ يُّرِيْدَآ إِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ ٱللّٰهُ بَيْنَهُمَآۗ إِنَّ ٱللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيْرًا ."(سورة النساء:35)

ترجمہ:"اور اگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہومرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہو عورت کے خاندان سے بھیجو ،اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی کے درمیان اتفاق پیدا فرمادیں گے،بے شک اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں "۔                                  

(بیان القرآن: 355/1، ط: رحمانیہ)

دوسری جگہ ارشادِ  باری تعالیٰ ہے:

"فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ ٱللّٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا ٱفْتَدَتْ بِهِ."(البقرة: 229)

ترجمہ: "سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ دونوں ضوابط خداوندی کو قائم نہ کرسکیں گے تو کوئی گناہ نہ ہوگااس(مال کے دینے)میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔"

(بیان القرآن:162/1، ط: رحمانیہ)

حیلۂ ناجزہ میں ہے:

"اور صورتِ تفریق یہ ہےکہ عورت اپنامقدمہ قاضی اسلام یامسلمان حاکم اوراُن کے نہ ہونے کی صورت میں جماعت المسلمین کے سامنے پیش کرے اور جس کے پاس پیش ہووہ معاملہ کی شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ سے پوری تحقیق کرےاوراگر عورت کادعوٰی صحیح ثابت ہوکہ باوجود وسعت کے خرچ نہیں دیتاتو اس کے خاوندسے کہاجائے کہ اپنی عورت کے حقوق اداکرویاطلاق دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے۔اس کے بعد بھی اگر وہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرے توقاضی یاشرعًاجواس کے قائم مقام ہوطلاق واقع کردے اس میں کسی مدت کے انتظارومہلت کی باتفاقِ مالکیہ ضرورت نہیں۔"

(الحیلۃ الناجزۃ، ص: 72،73، ط: دارالاشاعت) 

بدائع الصنائع ميں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول ؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق، فصل وأماالذي یرجع الی المرأۃ، 145/3، ط: دارالكتب العلمية)

فتاوٰی شامی میں ہے :

"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، 440/3، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں