ایک دل کا ڈاکٹر ہے، وہ پاکستان سے باہر کسی غیرمسلم ملک میں کمانے کےلیےجانے کو حرام سمجھتاہے، اب کیا غیرمسلم ملک میں جاکر کمانا اور وہاں گھر بسانا جائز ہےیا نہیں ؟ شرعی راہ نمائی فرمائیں ۔
واضح رہے کہ بلا کسی ضرورت، حاجت اور شدید مجبوری کے محض دولت کے حصول اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے یا اپنے معاشرے میں معزز بننے اور دوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی جتلانے کے لیے مسلم ملک کو چھوڑ کر غیر مسلم ممالک میں مستقل رہائش اختیار کرنا اور دار الحرب کی شناخت و قومیت کو افضل سمجھتے ہوئے دار الاسلام کی شناخت و قومیت پر ترجیح دے کر غیر مسلم ملک کی شہریت و قومیت حاصل کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس صورت میں آدمی محض دنیاوی لالچ کی وجہ سے اپنے دین و ایمان کو اور اپنے دینی تشخص کو داؤ پر لگاتا ہے اور عام طور سے تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جو لوگ صرف ان اغراض کی وجہ سے غیر مسلم ممالک جاتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ ان ممالک میں موجود گناہوں اور منکرات کے سمندر میں ڈوب کر (اگر ایمان سے محروم نہ بھی ہوں) کم از کم دینی احکام اور اسلامی تشخص سے ضرور محروم ہو جاتے ہیں، اور رفتہ رفتہ وضع قطع (لباس، حلیہ، شکل و صورت) اور بود و باش میں مکمل طور پر کفار کی مشابہت نہ صرف اختیار کرتے ہیں، بلکہ کفار کی مشابہت کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے ہیں، جو کہ صریح حرام ہے۔
مزید یہ کہ اگر بیوی بچے بھی ساتھ ہوں تو خاندان کا سربراہ ہونے کی وجہ سے ان کی دینی تربیت کا انتظام نہ کرنے کے باعث ان کی بے دینی کا گناہ اور وبال بھی اسی شخص پر پڑے گا، چنانچہ اسی وجہ سے حدیث شریف میں شدید ضرورت کے بغیر کفار و مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اسی کے مثل ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی آگ اور کفر کی آگ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، تم یہ امتیاز نہیں کر سکو گے کہ یہ مسلمان کی آگ ہے یا مشرکین کی آگ ہے۔
البتہ اگر کوئی مسلمان کسی شدید عذر و مجبوری کی وجہ سے غیر مسلم ممالک میں جاکر رہائش اختیار کرتا ہے، مثلاً بغیر کسی جرم کے اپنے ملک میں مظالم اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑ رہی ہوں اور ان مظالم سے بچنے کی کوئی اور صورت نہ ہو یا کوئی شخص شدید معاشی بحران کا شکار ہو اور کوشش کے باوجود اسلامی ملک میں معاشی وسائل دست یاب نہ ہوسکیں یا کوئی شخص غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچانے اور غیر مسلم ملک میں مقیم مسلمانوں کو دینی احکامات کی تعلیمات دینے اور دینِ اسلام پر ان کی ثابت قدمی برقرار رکھنے کی نیت سے غیر مسلم ممالک میں جاکر رہائش اختیار کرتا ہے تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ اسے اس بات کا مکمل اعتماد ہو کہ وہ غیر مسلم ملک میں شرعی احکامات کی مکمل پیروی کرکے اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور اس ملک میں موجود منکرات اور فحاشی کے سمندر میں اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچا سکتا ہے، اسی طرح اگر بیوی بچے ساتھ ہوں تو ان کے متعلق یہ اطمینان ہونا بھی شرط ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
"هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُور."(سورة الملک، الآیة:15)
ترجمہ: ”وہ ایسا (منعم) ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مسخر کردیا سو تم اس کے راستوں میں چلو(پھرو) اور خدا کی روزی میں سے (جو زمین سے پیداکی ہے) کھاؤ پیوا اور کھاپی کر اس کو یاد رکھو کہ اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہوکرجانا ہے“۔
أحکام القرآن للقرطبی میں ہے:
"قوله تعالى:{فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا} هو أمر إباحة ، وفيه إظهار الإمتنان. وقيل : هو خبر بلفظ الأمر ؛ أي لكي تمشوا في أطرافها ونواحيها وآكامها وجبالها."
(سورة الملك، الآية:15، ج:18، ص:215، ط: دار الکتب المصریة)
السنن الکبری للبیہقی میں ہے:
"عن جرير بن عبد الله البجلي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من أقام مع المشركين فقد برئت منه الذمة."
(کتاب السیر، باب فرض الھجرة، ج:9، ص:22، الرقم: 17750، ط:دار الکتب العلمیة)
ترجمہ:جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مشرکوں کے ساتھ رہتا ہے اس کے واجبات سے بری ہو گیا“۔
أحکام القرآن للجصاص میں ہے:
"عن جرير بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من أقام مع المشركين فقد برئت منه الذمة أو قال: لا ذمة له" ; قال ابن عائشة: هو الرجل يسلم فيقيم معهم فيغزون، فإن أصيب فلا دية له لقوله عليه السلام فقد برئت منه الذمة. وقوله: "أنا بريء منه" يدل على أن لا قيمة لدمه كأهل الحرب الذين لا ذمة لهم."
(سورة النساء، الآیة:92، باب المسلم يقيم في دار الحرب، ج:3، ص:217، ط: دار إحياء التراث العربي)
سنن الترمذی میں ہے:
"عن جرير بن عبد الله: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية إلى خثعم، فاعتصم ناس بالسجود، فأسرع فيهم القتل، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فأمر لهم بنصف العقل، وقال: "أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين". قالوا: يا رسول الله، ولم؟ قال: "لا تراءى ناراهما."
(أبواب السیر، باب ما جاء في كراهية المقام بين أظهر المشركين، ج: 3، ص: 422، الرقم: 1696، ط: دار الرسالة العالمية)
ترجمہ: حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کی طرف ایک سریہ روانہ کیا، (کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں میں سے ) کچھ لوگوں نے سجدہ کے ذریعہ پناہ چاہی ، پھر بھی انہیں قتل کرنے میں جلدی کی گئی ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو آپ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا اور فرمایا: میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتاہے، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آخر کیوں ؟آپ نے فرمایا: (مسلمان کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہونا چاہیئےکہ ) وہ دونوں ایک دوسرے ( کے کھانا پکانے) کی آگ نہ دیکھ سکیں۔
عون المعبود شرح سنن أبی داؤد میں ہے:
"وقال الخطابي في معناه ثلاثة وجوه قيل معناه لا يستوي حكمهما وقيل معناه أن الله فرق بين داري الإسلام والكفر فلا يجوز لمسلم أن يساكن الكفار في بلادهم حتى إذا أوقدوا نارا كان منهم بحيث يراهاوقيل معناه لا يتسم المسلم بسمة المشرك ولا يتشبه به في هديه وشكله."
(کتاب الجھاد، باب : النھی من اعتصم بالسجود، ج:7، ص:219، ط: دار الکتب العلمیة)
سنن أبی داؤد میں ہے:
"عن سمرة بن جندب : أما بعد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله."
(کتاب الجھاد، باب فی الإقامةبأرض الشرک، ج:3، ص:48، الرقم: 2787، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)
ترجمہ : حضرت سمرہ بن جند ب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اسی کے مثل ہے۔
بذل المجہود فی حل سنن أبی داؤد میں ہے:
"عن سمرة بن جندب: أما بعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من جامع المشرك) أي: اجتمع معه في دار أو بلد، والأحسن أن يقال: معناه اجتمع معه، أي: اشترك في الرسوم والعادة والهيئة والزي، وأما قوله: (وسكن معه) علة له، أي: سكناه معه صار علة لتوافقه في الهيئة والزي والخصال (فإنه مثله) نقل في الحاشية عن "فتح الودود": فإنه مثله، أي: يقارب أن يصير مثلًا له لتأثير الجوار والصحبة، ويحتمل أنه تغليظ."
(کتاب الجھاد، باب فی الإقامةبأرض الشرک، ج:9، ص:525، الرقم: 2787، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605100177
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن