بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مقلدین کے پیچھے نماز کا حکم


سوال

کیا غیر مقلدین کےپیچھے نماز ہوتی یا نہیں؟

جواب

اگر غیر مقلد امام کے بارے میں یہ یقین ہو کہ نماز کے ارکان وشرائط میں مقتدیوں کے مذہب  کی رعایت کرتا ہے تو اس کی اقتدا میں نماز  پڑھنا بلاکراہت جائز ہے،  اور اگر رعایت نہ رکھنے کا یقین ہو  تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا صحیح نہیں ہوگا،  اور جس امام کا حال معلوم نہ ہو  اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

یہ تفصیل اس وقت ہے جب امام کا عقیدہ صحیح ہو ، اگر اس کا عقیدہ فاسد ہےاور وہ مقلدین کو مشرک سمجھتا ہو  اور ائمہ کرام کو گالیاں دیتا ہو یا ان کو برا بھلا کہتا ہو تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہوگی۔لہذا کوشش کرکے کسی صحیح العقیدہ شخص کی اقتدا میں نماز ادا کرنی چاہیے، اگر قریب میں کوئی ایسی مسجد نہ ہو جس میں صحیح عقیدہ والا امام موجود ہو تو جماعت چھوڑنے کے بجائے اس کی اقتدا  میں نماز ادا کرلینی چاہیے تاکہ جماعت کا ثواب مل جائے، البتہ ایسے شخص کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی صورت میں صحیح العقیدہ امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے برابر ثواب نہیں ملے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

" أن الحاصل أنه إن علم الاحتياط منه في مذهبنا فلا كراهة في الاقتداء به وإن علم عدمه فلا صحة، وإن لم يعلم شيئا كره. "

( كتاب الصلاة،  باب الوتر والنوافل، ٢ / ٧، ط: دار الفكر)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"وأما الاقتداء بالمخالف فإن كان مراعيا للشرائط والأركان عندنا فالاقتداء به صحيح على الأصح ويكره وإلا فلا يصح أصلا ذكره في البحر اهـ. ونقل في شرح المجمع عن الكفاية الاقتداء بالشافعي مكروه لكنه إن علم منه ما يفسد الصلاة كالفصد لا يجوز، وإن شاهده يمس امرأة ولم يتوضأ قيل يجوز الاقتداء به والأقيس أنه لا يجوز لما في زعم الإمام أن صلاته غير جائزة اهـ قلت يفهم من قوله كره أن محل الكراهة إذا جهل لقوله بعد لكنه إن علم منه ما يفسد. . . إلخ وبه صرح في البحر في باب الوتر اهـ.

ويفيد أنه إن علم بما لا يخل بالشرائط لا كراهة في الاقتداء به اهـ. ولكنه مخالف لما حكم به في البحر من كراهة الاقتداء به مع مراعاته للشرائط، وقد ذكر في البحر في باب الوتر والنوافل عن النهاية إذا علم منه أي الشافعي مرة عدم الوضوء من الحجامة ثم غاب عنه ثم رآه يصلي فالصحيح جواز الاقتداء به مع الكراهة ثم قاله إن علم منه الاحتياط في مذهب الحنفي فلا كراهة في الاقتداء به وتمام تفريعه فيه فليراجع."

( كتاب الصلاة، فصل في الإمامة، الأحق بالإمامة، ١ / ٨٦، ط: دار إحياء الكتب العربية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں