بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مقلد اور بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھنا / غير مقلد اور بریلوی علماء کی تفاسیر پڑھنا


سوال

1۔ غیر مقلدین اور بریلوی حضرات کے پیچھے نماز پڑھنا  کیا درست ہے؟

2۔  اور ان کی تفاسیر کا مطالعہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

 غیر مقلد شخص  اگر سلف صالحین   بالخصوص  ائمہ  فقہاء  رحمہم اللہ کو گالیاں دیتا ہو ، یا  تقليد کو شرک قرار دیتا ہو،   تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ اگر وہ  مذکورہ بالا عقائد کا حامل نہ ہو، اور نماز و طہارت میں مقتدیوں  کے مسلک کے مطابق طہارت و نماز کی شرائط و ارکان کی رعایت رکھتا ہو، تو ایسے شخص کی اقتدا  میں نماز ادا کرنا درست ہے،  اور  اگر وہ رعایت نہ رکھتا ہو، اور اس کا یقین  بھی ہو  تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا صحیح نہیں ہوگا،  اور جس امام کا حال معلوم نہ ہو  اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"وأما الاقتداء بالمخالف فإن كان مراعيا للشرائط والأركان عندنا فالاقتداء به صحيح على الأصح ويكره وإلا فلا يصح أصلا ذكره في البحر اهـ.

ونقل في شرح المجمع عن الكفاية الاقتداء بالشافعي مكروه لكنه إن علم منه ما يفسد الصلاة كالفصد لا يجوز، وإن شاهده يمس امرأة ولم يتوضأ قيل يجوز الاقتداء به والأقيس أنه لا يجوز لما في زعم الإمام أن صلاته غير جائزة اهـ قلت يفهم من قوله كره أن محل الكراهة إذا جهل لقوله بعد لكنه إن علم منه ما يفسد. . . إلخ وبه صرح في البحر في باب الوتر اهـ.

ويفيد أنه إن علم بما لا يخل بالشرائط لا كراهة في الاقتداء به اهـ.

ولكنه مخالف لما حكم به في البحر من كراهة الاقتداء به مع مراعاته للشرائط، وقد ذكر في البحر في باب الوتر والنوافل عن النهاية إذا علم منه أي الشافعي مرة عدم الوضوء من الحجامة ثم غاب عنه ثم رآه يصلي فالصحيح جواز الاقتداء به مع الكراهة ثم قاله إن علم منه الاحتياط في مذهب الحنفي فلا كراهة في الاقتداء به وتمام تفريعه فيه فليراجع."

( كتاب الصلاة، فصل في الإمامة، الأحق بالإمامة، ١ / ٨٦، ط: دار إحياء الكتب العربية)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" أن الحاصل أنه إن علم الاحتياط منه في مذهبنا فلا كراهة في الاقتداء به وإن علم عدمه فلا صحة، وإن لم يعلم شيئا كره. "

( كتاب الصلاة،  باب الوتر والنوافل، ٢ / ٧، ط: دار الفكر)

اگر بریلوی  امام شرکیہ عقائد رکھتا ہے ،یعنی  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی مانند ہر  جگہ  حاضر و ناظر ،عالم الغیب  اور مختار کل سمجھتا ہے تو یہ  شرک ہے ،جان بوجھ کر ایسے عقائد  رکھنے  والے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ،پڑھنے کی صورت میں لوٹا نا لازم ہوگا ۔لیکن اگر  بریلوی امام شرکیہ عقائد نہیں رکھتا ہے ،صرف بدعات میں مبتلا ہے تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے ،کسی صحیح العقیدہ، متقی، پرہیزگار امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے،  اگر کہیں اور باجماعت نماز کا موقع میسر نہ ہو تو مذکورہ امام کی اقتدا میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے،البتہ متقی صحیح العقیدۃ امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے ،اتنا ثواب نہیں ملے گا ۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" (ويكره) تنزيها (إمامة عبد)... (ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته لكونه عن تأويل وشبهة بدليل قبول شهادتهم، إلا الخطابية ومنا من كفرهم (وإن) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة (كفر بها) كقوله إن الله تعالى جسم كالأجسام وإنكاره صحبة الصديق (فلا يصح الاقتداء به أصلا) فليحفظ.

(قوله وهي اعتقاد إلخ) عزاه هذا التعريف في هامش الخزائن إلى الحافظ ابن حجر في شرح النخبة، ولا يخفى أن الاعتقاد يشمل ما كان معه عمل أو لا، فإن من تدين بعمل لا بد أن يعتقده كمسح الشيعة على الرجلين وإنكارهم المسح على الخفين وذلك، وحينئذ فيساوي تعريف الشمني لها بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما اهـ فافهم."

( كتاب الصلاة،  باب الإمامة،  ١ / ٥٥٩ - ٥٦٢، ط:  دار الفكر )

2۔ عوام الناس   کی رسائی چوں کہ دلائل تک نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ان کے  لیے رطب و یابس میں فرق ممکن نہیں ہوتا؛  لہذا کسی مستند عالم کے مشورہ کے بغیر  غير مقلدین و بریلوی  حضرات  کی کسی بھی کتاب خواہ وہ تفسیر  ہو یا کسی اور موضوع  سے متعلق ہو، اس کے مطالعہ سے اجتناب کرنا چاہیے؛ کیوں کہ غير مقلدین جمہور اہل السنہ و الجماعة کے بعض  اجماعی مسائل  کے منکر  ہیں، اسی طرح سے فقہاء کرام رحمہم اللہ  پر طعن کرتے ہیں اور تقليد کو شرک قرار دیتے ہیں، جب کہ بریلوی حضرات بدعات کے مرتکب ہیں اور ان کے بعض عقائد و اعمال خلافِ شرع ہیں، جس کی بنا پر وہ گم راہی کے راستہ پر ہیں، لہٰذا عوام کو   ان  کی  کسی بھی قسم کی کتابیں پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

لمعة الاعتقاد لابن قدامة میں ہے:

" ومن السنة: هجران أهل البدع ومباينتهم، وترك الجدال والخصومات في الدين، وترك النظر في كتب المبتدعة، والإصغاء إلى كلامهم، وكل محدثة في الدين بدعة، وكل متسم بغير الإسلام والسنة مبتدع."

( محمد خاتم النبيين، ص: ٤٠ - ٤١، ط: وزارة الشؤون الإسلامية والأوقاف والدعوة والإرشاد - المملكة العربية السعودية)

كشاف القناع عن الإقناع میں ہے:

"(ولا) النظر في (كتب أهل البدع).(و) لا النظر في (الكتب المشتملة على الحق والباطل، ولا روايتها) لما في ذلك من ضرر إفساد العقائد."

( باب صلاة التطوع، ٣ / ٨٢، ط: وزارة العدل في المملكة العربية السعودية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" قال الشيخ الإمام صدر الإسلام أبو اليسر نظرت في الكتب التي صنفها المتقدمون في علم التوحيد فوجدت بعضها للفلاسفة مثل إسحاق الكندي والاستقراري وأمثالهما وذلك كله خارج عن الدين المستقيم زائغ عن الطريق القويم فلا يجوز النظر في تلك الكتب ولا يجوز إمساكها فإنها مشحونة من الشرك والضلال قال ووجدت أيضا تصانيف كثيرة في هذا الفن للمعتزلة مثل عبد الجبار الرازي والجبائي والكعبي والنظام وغيرهم فلا يجوز إمساك تلك الكتب والنظر فيها كي لا تحدث الشكوك ولا يتمكن الوهن في العقائد وكذلك المجسمة صنفوا كتبا في هذا الفن مثل محمد بن هيصم وأمثاله فلا يحل النظر في تلك الكتب ولا إمساكها فإنهم شر أهل البدع." 

( كتاب الكراهية، الباب الثلاثون في المتفرقات، ٥ / ٣٧٧، ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں