بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلموں کی خوشی یا غمی میں شرکت کرنے کا حکم


سوال

کیا عیسائیوں کی خوشی یا غمی میں شرکت کر سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ غیر مسلموں کی ایسی خوشی غمی جس  میں کوئی غیر شرعی رسومات اور طور طریقےمثلا : ناچ گانا، مردوں اور عورتوں کا مخلوط اجتماع وغیرہ نہ ہوں اور وہ پروگرام ان کے کسی مذہبی رسم، شعار یا تہوار کا نہ ہو، تو اس میں شریک ہونا جائز ہے۔

نیز غیر مسلموں کی خوشی غمی  میں شرکت کی اجازت محض غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور خوش خلقی کی بنیاد پر ہے، کیوں کہ غیر مسلوں کے ساتھ رواداری اور خوش خلقی کا معاملہ کرنا جائز ہے، لیکن ان کے ساتھ قلبی محبت اور دوستی کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہے،قرآن کریم میں اس سے سختی کے ساتھ منع کیاگیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"﴿ لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ﴾."[آل عمران:28]

ترجمہ: "مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں  مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے ، اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ "

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

" کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں: موالات یعنی دوستی۔ مدارات: یعنی ظاہری خوش خلقی۔ مواساۃ:  یعنی احسان و نفع رسانی۔

موالات تو کسی حال میں جائز نہیں۔ اور مدرات تین حالتوں میں درست ہے:  ایک دفعِ ضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحتِ دینی یعنی توقعِ ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے، اور اپنی مصلحت و منفعتِ مال و جان کے لیے درست نہیں۔ اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب کے ساتھ جائز۔"(بیان القرآن)

صحیح البخاری میں ہے:

"عن أنس بن مالك رضي الله عنه: «أن يهودية أتت النبي صلى الله عليه وسلم بشاة مسمومة فأكل منها، فجيء بها، فقيل: ألا نقتلها؟ قال: لا. فما زلت أعرفها في لهوات رسول الله صلى الله عليه وسلم.»".

(‌‌كتاب الهبة وفضلها، باب قبول الهدية من المشركين،  ج:3، ص:163، الرقم:2617، ط:دار طوق النجاة - بيروت)

فتح الباری میں ہے:

"أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز؛ لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع، فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."

(باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، 10/ 497، ط: دارالمعرفة بیروت)

فتاویٰ تتارخانیۃ میں ہے:

"ولابأس بالذهاب إلی ضیفة أهل الذمة."

(ج:18،ص:167)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں