بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر منکوحہ اجنبیہ کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے کا والد قدرت کے باوجود منع نہ کرے تو اس سے معاشرتی بائیکاٹ اور قطع تعلقی جائز ہے


سوال

ایک شخص ایک غیر منکوحہ کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے، اور اس کا باپ اس کی سرپرستی کر رہا ہے، یعنی باپ کو اس بات کا علم ہے کہ میرا بیٹا جس لڑکی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے اس کو طلاق نہیں ہوئی، اس کے باوجود باپ ان کی کفالت کر رہا ہے، کیا اسلام میں ایسے شخص کے ساتھ بقیہ برادری کو تعلق رکھنا چاہیے یا اس سے قطع تعلق کرنا چاہیے؟ کیوں کہ وہ شخص سب کچھ جانتے ہو ئے بیٹے سے زنا کروا رہا ہے ،شریعت ایسے شخص کے ساتھ اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے کی اجازت دیتی ہے یا اس سے قطع تعلق کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ غیر منکوحہ اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت کرنا اور ناجائز تعلقات قائم کرنا شرعاً ناجائز و حرام ہے، اللہ کے غیض و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ لڑکا غیر منکوحہ لڑکی کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے تو اس پر  لازم ہے کہ وہ فی الفور اس لڑکی سے علیحدہ ہوکر اپنے گزشتہ عمل پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ اس عمل کو نہ کرنے کا عزم کرے،مذکورہ  لڑکے کے والد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو اس عمل سے روکے، اگر   بیٹا باوجود منع کرنے کے اس برے کام سے باز نہیں آتا تو والد کی غیرت ایمانی کا تقاضا یہی ہے کہ بیٹے کو گھر سے نکال دے، اور   اس سے قطع تعلقی اختیار کرے، اگر وہ قطع تعلقی اختیار نہیں کرتا، بلکہ اپنے بیٹے کی برائی کی پشت پناہی کرتا ہے تو برادری کے افراد کے لیے اس سے معاشرتی بائیکاٹ اور قطع تعلقی کرنا جائز ہے، تا وقتیکہ وہ برائی سے باز آجائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: ‌الخلوة ‌بالاجنبية حرام."

(کتاب الحظر والإباحہ، فصل في النظر واللمس، ج:6، ص:368، ط:سعید)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن أول ما دخل النقص على بني إسرائيل كان الرجل يلقى الرجل فيقول يا هذا اتق الله ودع ما تصنع فإنه لا يحل لك، ثم يلقاه من الغد فلا يمنعه ذلك أن يكون أكيله وشريبه وقعيده فلما فعلوا ذلك ضرب الله تعالى قلوب بعضهم ببعض" ثم قال: {لعن الذين كفروا من بني إسرائيل على لسان داود وعيسى ابن مريم ذلك بما عصوا وكانوا يعتدون} إلى قوله: {فاسقون}، ثم قال: "كلا والله لتأمرن بالمعروف وتنهون عن المنكر ولتأخذن على يدي الظالم ولتأطرنه على الحق أطرا وتقصرنه على الحق قصرا"... فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم أن من شرط النهي عن المنكر أن ينكره ثم لا يجالس المقيم على المعصية، ولا يؤاكله، ولا يشاربه. وكان ما ذكره النبي صلى الله عليه وسلم من ذلك بيانا لقوله تعالى: {ترى كثيرا منهم يتولون الذين كفروا} فكانوا بمؤاكلتهم إياهم ومجالستهم لهم تاركين للنهي عن المنكر لقوله تعالى: {كانوا لا يتناهون عن منكر فعلوه}.

وجائز مع ذلك تركهم لمن خاف إن أقدم عليهم بالقتل أن يقتل; إلا أن عليه اجتنابهم والغلظة عليهم بما أمكن وهجرانهم. وكذلك حكم سائر من كان مقيما على شيء من المعاصي الموبقات مصرا عليها مجاهرا بها فحكمه حكم من ذكرنا في وجوب النكير عليهم بما أمكن وتغيير ما هم عليه بيده، وإن لم يستطع فلينكره بلسانه، وذلك إذا رجا أنه إن أنكر عليهم بالقول أن يزولوا عنه ويتركوه، فإن لم يرج ذلك، وقد غلب في ظنه أنهم غير قابلين منه مع علمهم بأنه منكر عليهم وسعه السكوت عنهم بعد أن يجانبهم ويظهر هجرانهم; لأن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "فليغيره بلسانه فإن لم يستطع فليغيره بقلبه". وقوله صلى الله عليه وسلم: "فإن لم يستطع" قد فهم منه أنهم إذا لم يزولوا عن المنكر فعليه إنكاره بقلبه سواء كان في تقية أو لم يكن; لأن قوله: "إن لم يستطع" معناه أنه لا يمكنه إزالته بالقول فأباح له السكوت في هذه الحال."

(سورۃ آل عمران، مطلب فی بیان معنی التقیہ و حکمہا، باب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، ج:2، ص:41/37، ط:دار الکتب العلمیہ)

عمدۃ القاری میں ہے:

"أي: هذا باب في بيان ما يجوز من ‌الهجران لمن عصى، وقال المهلب: غرض البخاري من هذا الباب أن يبين صفة ‌الهجران الجائز وأن ذلك متنوع على قدر الإجرام، فمن كان جرمه كثيرا فينبغي هجرانه واجتنابه وترك مكالمته، كما جاء في كعب بن مالك وصاحبيه، وما كان من المغاضبة بين الأهل والإخوان فالهجران الجائز فيها ترك التحية والتسمية وبسط الوجه، كما فعلت عائشة في مغاضبتها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال كعب، حين تخلف عن النبي صلى الله عليه وسلم: ونهى النبي صلى الله عليه وسلم المسلمين عن كلامنا، وذكر خمسين ليلة."

(کتاب الأدب، باب ما یجوز من الہجران لمن عصی، ج:22، ص:144، ط:دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں