بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مملوکہ جنگل کو ٹھیکے پر دینے کا حکم


سوال

ہمارے چترال میں ایک عوامی جنگل ہے،ادھر لکڑیاں وغیرہ اُگتی ہیں جوکہ لوگ کاٹنے آتے ہیں، اب ہوتا یہ ہے کہ اس مقام کے رہائشی افراد مل کر ایک آدمی کو اس جنگل کا ٹھیکہ دےدیتے ہیں، اور پھر ٹھیکے پر لینے والا شخص ہر آنے والی گاڑی کو روک کر اس سے 5000 روپے وصول کرتاہے،جوکہ جمع ہوجانے کے بعداس مقام کے سارے رہائشی افراد کا حق ہوتاہے، اب وہ پیسہ جمع کرنے والا اس رقم کو سب میں تقسیم کرنے کے بجائے خود کھاجاتاہے، اور مقامیوں کو ان کا حصہ نہیں دیتا۔

1- کیا اس کا ایساکرنا جائز ہے یا ناجائز؟

2- کیااس کے لیے یہ کمائی حلال ہے یا حرام؟

3- اگر مقامی لوگوں کو ان کا حصہ مل جائے تو کیا وہ لوگ اس پیسے کو مسجد، مدرسےمیں لگاسکتے ہیں یا نہیں؟

4-  پیسے جمع کرنے والا آدمی ان مقامی لوگوں میں جمع شدہ پیسہ تقسیم کرنے کے بجائے جبراً ان کی طرف سے یہ پیسہ مسجد، مدرسہ میں لگادیتاہے، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

1،2-  صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ جنگلات حکومت کی ملکیت ہیں، (کیوں کہ  فی الوقت دیگر اضلاع کی طرح چترال کے جنگلات بھی محکمہ جنگلات کے زیرِ نگرانی ہیں)اور اگر حکومت نے علاقے کے لوگوں کو اس بات کا اختیار دیا ہوا ہے کہ اگر وہ ان جنگلات سے بذات خود فائدہ اٹھانا چاہیں تو اٹھا سکتے ہیں، یا علاقے کے لوگ ان جنگلات کو آگے ٹھیکے پر دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، یا مستقل اجازت تو نہیں ہے ، لیکن کوئی پابندی بھی نہیں ہےتو ایسی صورت میں اس علاقے کے لوگوں کا جنگل کو آگے ٹھیکے پر دینا جائز ہے،البتہ تیسری صورت میں  اجازت لے لینا بہتر ہے،اس صورت میں  ٹھیکے سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی بالکل حلال ہوگی،اور ٹھیکے پر لینے والے شخص پر شرعاً لازم ہوگا کہ وہ جمع شدہ رقم میں سے اپنا جائز حصہ اپنے پاس رکھ کر بقیہ رقم   مستحق مقامی افراد کے سپرد کرے ،اس حکم کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں  اس کے لیے صرف اپنے حصے کے بقدر رقم کا استعمال کرنا جائز ہے اور   باقی رقم کا استعمال اس کے لیے حرام اور ناجائز ہے۔

اور اگر حکومت کی طرف سے جنگل کو ٹھیکے پر دینے کی اجازت نہیں ہے، تو پھر مقامی افراد کا اس جنگل کو آگے ٹھیکے پر دینا ناجائز ہے ،ایسی صورت میں حاصل شدہ آمدنی بھی ناجائز اور حرام ہے، اسی طرح ٹھیکے پر لینا اور پھر اس کے ذریعےلوگوں سے  پیسے وصول کرنا بھی جائز نہیں ہے، غرض یہ کہ حکومت کے قوانین اور ضوابط کے مطابق عمل کرنا لازم ہوگا۔

3- جن صورتوں میں آمدنی حلال ہے ان صورتوں میں ہر شخص اپنی آمدنی  مسجد ،مدرسے یا کسی بھی جائز مصرف میں لگا سکتا ہے اور جن صورتوں میں آمدنی ناجائز اور حرام ہے ،ان صورتوں میں وہ آمدنی مسجد ،مدرسےمیں دینا جائز نہیں ہے،بلکہ اس آمدنی کو بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا لازم ہے۔

4- واضح رہے کہ  شریعت نے ہر ایک کو اپنے مال میں تصرف کرنے کی اجازت دی ہے،کسی   دوسرے کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا (چاہے وہ بظاہر کوئی جائز تصرف ہی کیوں نہ ہو)شرعا جائز نہیں ہے،لہٰذا ٹھیکے پر لینے والے شخص کا مستحق افراد کی رضامندی کے بغیرجبراً  ان کی رقم کو مسجد ،مدرسے یا کسی بھی مصرف میں لگانا جائز نہیں ہے، اس پر لازم ہے کہ تمام رقم مستحق افراد کو ادا کرے،اور اگر ان کی رضامندی کے بغیر رقم کہیں صرف کردی ہے تو بعد میں  اگر مالکان نے اجازت دے دی تو ٹھیک ،ورنہ اتنی ہی رقم مالکان کو ادا کرنا ضروری ہے۔

قرآنِ مجید  میں ہے:

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ."(النساء، 29)

ترجمہ:"اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا  مال ناحق طور پر مت کھاؤ۔ "

مشکوۃ شریف میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لاتظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 443، رقم: 2945، ط: بشري)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار کسی پر بھی ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو!کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی  کے بغیر  حلال نہیں ہے."

وفیہ ایضاً:

"وعنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:على ‌اليد ما أخذت حتى تؤدي."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ص: 255، ط: قديمي)

ترجمہ:"کسی سے لی گئی چیز وہ لینے والے کے اوپر ہے،یہاں تک کہ اسے واپس کردے."

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي عن سمرة(عن النبي صلي الله عليه وسلم قاك علي اليد ما أخذت) أي يجب علي اليد رد ما أخذته............... قال الطيبي..........ما أخذته اليد ضمان علي صاحبها والإسناد إلي اليد علي المبالغة لأنها هي المتصرفه(حتي تؤدي)........ أي حتي تؤدِيه إلي مالكه فيجب رده في الغصب وإن لم يطلبه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 6، ص: 137، ط: رشيدية)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيها الناس، ‌إن ‌الله ‌طيب لا يقبل إلا طيبا، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51]، وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 57] ، ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر، ثم يمد يديه إلى السماء: يا رب، يا رب، ومطعمه حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك؟

(كتاب الزكاة، باب بيان أن اسم الصدقة يقع علي كل نوع من المعروف، ج: 2، ص: 665، رقم: 2346، ط: بشري)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."

(کتاب الکراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ج: 5، ص: 342، ط: رشيدية)

رد المحتار میں ہے:

"والحاصل أنه ‌إن ‌علم ‌أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(شامي، كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج: 5، ص: 99، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا.

وفي الرد: (قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم."

(رد المحتار، کتاب اللقطة، ج: 4، ص: 283، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب في التعزير بأخذ المال، ج: 4، ص: 61، ط: سعید)

'مجلۃ الاحکام العدلیۃ 'میں ہے:

" : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."

(‌‌المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص: 99، المادة: 96، ط: دار ابن حزم)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں