بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مدخول بہا بیوی کو معلق طلاق دینے کے بعد شرط پائی جانے سے پہلے اگر جماع کرلیا جائے تو شرط پائی جانے پر کون سی طلاق واقع ہوگی؟ / کیا طلاقِ بائن کو رجعی بنانے کے لیے حالتِ حیض میں بیوی سے جماع کرنا جائز ہے؟


سوال

حمزہ نے اپنی (غیر مدخولہ) بیوی ہانیہ کو کہا "اگر تو فلاں گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق"، بعد میں حمزہ کو کسی عالم نے بتایا کہ اگر ہانیہ اس گھر میں داخل ہوگئی تو تیری بیوی بائنہ(نکاح سے فارغ) ہو جاۓ گی۔ پوچھنے کی بات یہ ہے کہ:

(1) حمزہ اس طلاق والے جملے کے بعد اگر ہانیہ سے جماع کرلے اور بعد جماع کے ہانیہ اس معین گھر میں داخل ہوجاۓ، تو کیا ہانیہ کو طلاق رجعی ہوگی یا جس وقت اس نے طلاق کے الفاظ بولے تھے اس وقت کا اعتبار ہوگا اور بائنہ ہوگی؟

(2) حمزہ کو معلوم ہوا کہ ہانیہ اتوار کے دن اس معین و معلق گھر میں داخل ہو جاۓ گی اور ہانیہ ان دنوں میں حائضہ ہے، تو کیا حمزہ اپنی معلقہ طلاق کو رجعی بنانے کے لیے ہانیہ سے حیض کی حالت میں جماع کرسکتا ہے؟

جواب

(1) ایسی صورت میں ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلی الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقًا مثل أن یقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(كتاب الطلاق،  الباب الرابع في الطلاق بالشرط ونحوه، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما،  ١ / ٤٢٠،  ط: دار الفكر)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"قوله (وإذا أضاف الطلاق إلى شرط وقع ‌عقيب ‌الشرط مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق) هذا بالاتفاق؛ لأن الملك قائم في الحال والظاهر بقاؤه إلى وقت الشرط ولأنه إذا علقه بالشرط صار عند وجود الشرط كالمتكلم بالطلاق في ذلك الوقت فإذا وجد الشرط والمرأة في ملكه وقع الطلاق كأنه قال لها في ذلك الوقت أنت طالق وإن كانت خرجت من ملكه بعد هذا القول ثم وجد الشرط وهي في غير ملكه لم تطلق وانحلت اليمين لما بينا أنه يصير عند وجود الشرط كالمتكلم بالطلاق ولو قال لها وقد خرجت من ملكه أنت طالق لم تطلق حاصله إذا قال لها إن دخلت الدار فأنت طالق ثم أبانها وانقضت عدتها ودخلت الدار انحلت اليمين لوجود الشرط ولم يقع عليها طلاق؛ لأن المعلق عند وجود الشرط كالمتكلم بالجواب في ذلك الوقت من طريق الحكم."

(كتاب الطلاق، باب طلاق الأخرس، ٢/ ٣٩، ط: المطبعة الخيرية)

 

(2) حالتِ حیض میں بیوی سے جماع کرنا حرام ہے، لہٰذا مذکورہ شخص کے لیے یہ فعل جائز نہیں، اگر اسے اندیشہ ہے کہ اس کی بیوی مذکورہ گھر میں داخل ہوجائے گی، تو وہ کسی طریقے سے اُسے روکنے کی کوشش کرے، اگر کوشش کے باوجود وہ نہ رکے، تو اس گھر میں داخل ہونے سے مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی جس کے بعد دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے نیا نکاح کرسکتے ہیں، بیوی پر عدت بھی لازم نہیں، تاہم نکاح کے بعد شوہر کے پاس آئندہ دو طلاقوں کا اختیار ہی باقی رہےگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) وطؤها (يكفر مستحله) كما جزم به غير واحد، وكذا مستحل وطء الدبر عند الجمهور مجتب (وقيل لا) يكفر في المسألتين، وهو الصحيح خلاصة (وعليه المعول) ؛ لأنه حرام لغيره ... ثم هو كبيرة لو عامدا مختارا عالما بالحرمة لا جاهلا أو مكرها أو ناسيا فتلزمه التوبة.

قال عليه في الرد: (قوله ووطؤها) أي الحائض قال في الشرنبلالية: ولم أر حكم وطء النفساء من حيث التكفير، أما الحرمة فمصرح بها. اهـ ... (قوله فلعله يفيد التوفيق) أي بحمل القول بكفره على استحلال اللواطة بغير المذكورين والقول بعدمه عليهم.  (قوله؛ لأنه حرام لغيره) أي حرمته لا لعينه، بل لأمر راجع إلى شيء خارج عنه وهو الإيذاء ... (قوله ثم هو) أي وطء الحائض  (قوله لا جاهلا إلخ) هو على سبيل اللف والنشر المشوش. والظاهر أن الجهل إنما ينفي كونه كبيرة لا أصل الحرمة إذ لا عذر بالجهل بالأحكام في دار الإسلام، أفاده ط."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ١/ ٢٩٧، ط: سعيد)

وفيه أىضاً: 

"(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) ‌لا ‌إلى ‌عدة (و) لذا (لم تقع الثانية) بخلاف الموطوءة."

(كتاب الطلاق، باب طلاق غير المدخول بها، ٣/ ٢٨٦، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما حكم الطلاق البائن فالطلاق البائن نوعان: أحدهما الطلقات، والثاني الطلقة الواحدة البائنة، والثنتان البائنتان، ويختلف حكم كل واحد من النوعين وجملة الكلام فيه أن الزوجين أما إن كانا حرين، وأما إن كانا مملوكين، وأما إن كان أحدهما حرا، والآخر مملوكا.  فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ٣/ ١٨٧، ط: دار الكتب العلمية )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101342

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں