بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر کی منکوحہ کے ساتھ بات چیت کرنا


سوال

کئی سالوں تک میں اور میری ہم جماعت لڑکی  ایک دوسرے کے ساتھ منسلک تھے، ہم ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہیں، میں وکالت کی پڑھائی کرتا ہوں، جس کی تعلیم مکمل نہ ہونے کی وجہ سے میں اُن کے گھر رشتہ نہیں بھیج پایا، اتفاق سے اُن کا نکاح اُن کے پھوپی کے بیٹے کے ساتھ طے ہو گیا، ہم دونوں نے بہت کوشش کی، لیکن شادی نہ روک پائے،اس  دوران ہم دونوں کاتعلق معمول کے مطابق قائم تھا، ساری رات باتیں ہوتی تھیں، ہم دونوں پر اس کا اتنا بُرا اثر ہوا کہ ابھی تک اس حادثہ سے نکل نہیں پا رہے ہیں، اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ لڑکی چاہ رہی ہے کہ وہ میری زندگی میں واپس آجائےاگر میں مان جاؤ ، حالاں کہ چاہت مجھے اب بھی ہے اور  وہ بھی مجھے نہیں بھلا پا رہی ہے، وہ کہہ رہی ہے کہ میں اس نکاح سے خوش نہیں ہوں اور اس کا مجھ سے ابھی بھی رابطہ جاری ہے، حالاں کہ میں اس کے ساتھ شادی کے لیے راضی نہیں ہوں ایک اور بات کہ اگر فتوی کے بعد میں نکاح کے لیے راضی بھی ہوجاؤں تو میرے دل میں ایک بات بہت کھٹک رہی ہے وہ ہے ان کے اور اُن کے شوہر کے جسمانی تعلقات کا قائم ہونا، نیز ایک بات یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ یہ لڑکی کبھی ماں نہیں بن سکتی اور یہ بات میں جانتا ہوں، اب سوال یہ ہےکہ میں کیا کروں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی کے ساتھ آپ کے لیے بات چیت کرنا، ملنا جلنا یا کسی بھی قسم کے تعلقات قائم کرنا  شرعًا، اخلاقًا اور معاشرۃًجائز نہیں ہے، آپ پر لازم ہے کہ فوری طور پر اس کے ساتھ ہر طرح کے روابط ختم کریں، جب تک وہ اپنے شوہر کے نکاح میں ہے آپ کا اُس سے نکاح نہیں ہوسکتا، اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کریں اور اللہ تعالٰی سے خوب دعا مانگیں کہ اللہ تعالٰی آپ کے دل سے اس کو نکالے۔ کسی اللہ والے سے تعلق قائم کریں تاکہ اچھے لوگوں کی صحبت کی برکت سے آپ میں بھی صلاح وتقویٰ پیدا ہو۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"و لايكلم ‌الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلمت فيشمتها لايرد السلام عليها و إلا لا انتهى."

قال ابن عابدين: "(قوله: و إلا لا) أي و إلا تكن عجوزًا بل شابة لايشمتها، و لايردّ السلام بلسانه."

(كتاب الحضر والإباحة، فصل في النظر والمس، 369/6، ط: سعید)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"وتحرم ‌الخلوة ‌بالأجنبية ويكره الكلام معها."

(الفن الثالث، أحكام الأنثى، ص: 279، ط: دار الكتب العلمية)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"وقد اتفق الفقهاء على أن الخلوة بالأجنبية محرمة، وقالوا: لا يخلون رجل بامرأة ليست منه بمحرم، ولا زوجة، بل أجنبية؛ لأن الشيطان يوسوس لهما في الخلوة بفعل ما لا يحل، قال صلى الله عليه وسلم: لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان."

(حرف الخاء، الخلوة بالأجنبية، 267/19، ط: دار السلاسل)

سنن الترمذی میں ہے:

"عن عقبة بن عامر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إياكم والدخول على النساء، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أفرأيت الحمو؟، قال: الحمو الموت."

ترجمہ:  حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورتوں کے پاس داخل ہونے سے پرہیز کرو، ایک انصاری شخص نے عرض کیا:  یا رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،"دیور" کے بارے میں  کیا ارشاد ہے؟  آپ نے فرمایا :’’دیور‘‘ تو موت ہے۔

(‌‌أبواب النكاح، باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات، 466/3، ط: شركة مكتبة)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا يبيتن رجل عند امرأة ثيب، إلا أن يكون ناكحا أو ذا محرم."

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خبر دار! کوئی مرد کسی عورت کے پاس نہ ٹھہرے مگر یہ کہ وہ اس کا شوہر ہو یا اس کا  محرم ہو۔

(كتاب السلام، باب تحريم الخلوة بالأجنبية والدخول عليها، 1710/4، ط:  دارإحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101784

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں