میں نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں غیر ارادی طور پر طلاق کے الفاظ بولے ہیں اور کہا: "طلاق طلاق طلاق" لیکن بیوی کو مخاطب کر کے نہیں بولے بلکہ میں کچن میں کام کر رہا تھا اور وہ بچوں پر چیخ رہی تھی تو میں نے یہ الفاظ کہے۔ میرے تین چھوٹے بچے ہیں سب سے بڑا بیٹا ساڑھے تین سال کا ہے، پھر ڈھائی سال کی بیٹی پھر 9 ماہ کا بیٹا ہے۔ تو کیا اس کہنے سے طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نےجب بیوی کو غصہ کی حالت میں (اگرچہ غیر ارادی طور پر) طلاق، طلاق، طلاق کے الفاظ کہے ہیں تو شرعاً اس سے بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، اور وہ اپنے شوہر پر حر مت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، نکاح ختم ہو گیا ، اب شوہر کے لئے رجوع یا تجدید نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
سائل کی مطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
البتہ عدت گزارنے کے بعد سائلہ اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ اس سے صحبت (ہم بستری ) کرے اس کے بعد وہ دوسرا شخص اس کو طلاق دے دے یا وہ طلاق لے لے یا اس کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر عورت اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"و طلاق اللاعب والهازل به واقع و كذلك لو أراد أن يتكلم بكلام فسبق لسانه بالطلاق فالطلاق واقع، كذا في المحيط."
(کتاب الطلاق، ص:353، ج:1، ط:رشیدیه)
فتاوی شامی میں ہے:
"و لايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ"
(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ص:248، ج:3، ط:سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144306100917
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن