بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر سید کا اپنے نام کے ساتھ ’’سید‘‘ یا ’’شاہ‘‘ لگانے کا حکم


سوال

غیر سید  کے لیے "سید" نام رکھنا کیسا ہے محض محبت  کے لیے جیسے  "سید عطاء اللہ شاہ"؟

جواب

بنی ہاشم میں سےحضرت  علی، حضرت جعفر ،حضرت  عباس ، حضرت عقیل اور حضرت حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم کی اولاد سب ’’سادات‘‘   ہیں۔  ان سب کے  لیے اپنے نام کے ساتھ ’’سید‘‘  لگانا جائز ہے، ابتدائی عہد  میں ان سب حضرات کو سید کہا جاتا تھا، لیکن بعد میں یہ اصطلاح خاص ہوگئی،  چناں چہ  ہمارے عرف میں ’’سید‘‘  صرف وہ گھرانے  ہیں  جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحب زادگان حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہوں، ان ہی کا لقب  ’’سید‘‘ ہے، اور یہ  ان کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی نسبت کی علامت ہے،  اس لیے صرف حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی نسل  سے آنے والے گھرانوں کو ہی اپنے نام کے ساتھ  ’’سید‘‘ لکھنا  چاہیے،جب کہ ان کے علاوہ دیگر سادات کے  لیے اگرچہ اپنے نام کے ساتھ ’’سید‘‘ لگانا جائز تو ہے، لیکن مناسب نہیں،  خصوصاً جہاں اشتباہ ہو ۔ جب کہ جو لوگ سرے سے ’’سادات‘‘ (یعنی مذکورہ پانچ خاندانوں) میں سے ہی نہ ہوں،  ان کے  لیے  اپنے نام کے  ساتھ  لفظِ ’’سید‘‘ لگانا جائز  ہی نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں جو شخص سرے سے سادات میں سے ہی نہیں ہے، اس کے لیے محض سادات سے محبت کے اظہار کے  لیے اپنے نام کے ساتھ ’’سید‘‘ یا لفظِ ’’شاہ‘‘ لگانا جائز نہیں ہے، اس کو اپنا نام صرف ’’عطاء اللہ‘‘ (مثلًا) لکھنا چاہیے، کیوں کہ "شاہ"  کا لفظ بھی عام طور  پر  ہمارے  عرف  میں  وہ لوگ لگاتے ہیں جو نسب کے اعتبار سے سید ہوں، لہٰذا اگر کوئی شخص سادات میں سے  نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو سید ظاہر کرنے کے لیے یہ لفظ اپنے نام کے ساتھ لگاتا ہے یا اپنے بچے کے نام کے ساتھ لگاتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2170):

"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لاترغبوا) : أي: لاتعرضوا (عن آبائكم) : أي: عن الانتماء إليهم (فمن رغب عن أبيه) : أي: وانتسب إلى غيره (فقد كفر) : أي قارب الكفر، أو يخشى عليه الكفر. في النهاية: الدعوة بالكسر في النسب، وهو أن ينتسب الإنسان إلى غير أبيه وعشيرته، وكانوا يفعلونه فنهوا عنه، والادعاء إلى غير الأب مع العلم به حرام، فمن اعتقد إباحته كفر لمخالفة الإجماع، ومن لم يعتقد إباحته فمعنى (كفر) : وجهان، أحدهما: أنه أشبه فعله فعل الكفار، والثاني: أنه كافر نعمة الإسلام. قال الطيبي: ومعنى قوله: فالجنة عليه حرام على الأول ظاهر، وعلى الثاني تغليظ (متفق عليه) . ولفظ ابن الهمام: " «من ادعى أبا في الإسلام غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام» ) : وأما لفظ الكتاب فمطابق لما في الجامع الصغير."

الفتاوى الهندية (1/ 189):

’’ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 350):

’’(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي صلى الله عليه وسلم أعقب أربعةً وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعةً، انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب؛ فإنه أعقب اثني عشر، تصرف الزكاة إلى أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل، قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لا ينبغي؛ إذ لاتحرم عليهم كلهم، بل على بعضهم، ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضاً إلى هاشم، وتحل لهم الصدقة. اهـ.

وأجاب في النهر بقوله: وأقول: قال في النافع بعد ذكر بني هاشم: إلا من أبطل النص قرابته يعني به قوله صلى الله عليه وسلم: «لا قرابة بيني وبين أبي لهب؛ فإنه آثر علينا الأفجرين»، وهذا صريح في انقطاع نسبته عن هاشم، وبه ظهر أن في اقتصار المصنف على بني هاشم كفاية، فإن من أسلم من أولاد أبي لهب غير داخل؛ لعدم قرابته، وهذا حسن جداً، لم أر من نحا نحوه، فتدبره. اهـ‘‘. 

امام عبد الرحمن جلال الدین سیوطی شافعی (متوفی : 911 ھ) رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسا لہ "العجاجة الزرنبیة في السلالة الزینبیة" میں ارقام کرتے ہیں :

"إن اسم الشریف کان یطلق في الصدر الأول علی کل من کان من أهل البیت، سواء کان حسنیاً أم حسینیاً أم علویاً من ذریة محمد بن الحنفیة وغیره من أولاد علي بن أبي طالب، أم جعفریاً أم عقیلیاً أم عباسیاً ... فلما ولی الخلفاء الفاطمیون بمصر، قصروا اسم الشریف علی ذریة الحسن والحسین فقط، فاستمر ذلك بمصر إلی الآن".
ترجمہ : یعنی بے شک ’’سید‘‘ کا اطلاق قرونِ اولی میں ہر اُس شخص پر ہوتا تھا جو اہلِ بیت کرام سے ہو، چاہے وہ حسنی ہو ،حسینی ہو ،یا علوی ہو محمد بن حنفیہ کی اولاد اور دیگر اولادِ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، یا جعفری ہو یا عقیلی ہو یاعباسی ۔۔۔  جب مصر میں خلفاءِ فاطمیین کو حکومت ملی تو انہوں نے سید  کا لفظ فقط  حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے  لیے مختص کردیا، چناں چہ یہ تخصیص اس دور سے اب تک قائم ہے۔‘‘ 

(الحاوی للفتاوی للسیوطی ۔ جلد02 ۔ صفحہ39 ۔ دارالفکر ۔ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200867

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں