بعض اوقات کسی ان پڑھ کو کوئی حدیث آسان الفاظ میں سمجھانی پڑتی ہے ،کیا کوئی ایسا غیر عالم، جو علماء کی مجلس میں کثرت سے بیٹھتا ہو، اس کے لیے حدیث کا آسان الفاظ میں مفہوم بیان کرنے یا آسان الفاظ میں تشریح کرنے کی گنجائش ہے؟
قران وحدیث کی ترجمہ و تشریح اصولی طور پر حقانی علماء کا فریضہ ہے،غیرعالم عام طور پرترجمہ کی حدود کی رعایت کرنے اور حق باطل میں تمییز کرنے سے قاصر ہوتا ہے،اور اس بناء پرحدیث میں تحریف کا اندیشہ رہتا ہے،لہذا جو شخص عالم نہیں اسے کسی حدیث کا مفہوم بیان کرنا درست نہیں ، البتہ کسی معتبر عالم کی کتاب کا ترجمہ پڑھ کر سنادیاکرے ۔
فتح الغفار الجامع لأحكام سنة نبينا المختار میں ہے:
''وعن المغيرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم - يقول: «إن كذب علي ليس ككذب على أحد، فمن كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار» رواه مسلم وغيره.''
(باب ما جاء في الكذب على النبي صلى الله عليه وسلم ،ج:4،ص:186،ط:دار عالم الفوائد)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410101612
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن