بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر عالم کے آنے پر کھڑا ہونا


سوال

 اگر مدرسے کا ذمہ دار عالم یا حافظ نہیں ہے، تو کیا کوئی عالم یا حافظ، اس ذمہ دار کے سامنے آجانے پر کھڑے ہو سکتے ہیں کیا یہ جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  کسی شخص کے لیے کھڑے ہونے یا نہ کھڑے ہونے  سے متعلق مختلف احادیث وارد ہیں، بعض احادیث اور صحابہ کرام کے عمل سے اس کا ناجائز ہونا معلوم ہوتا ہے اور بعض احادیث اور صحابہ کرام کے عمل سے اس کا جواز معلوم ہوتا ہے، شراح حدیث نے ان دونوں قسم کی احادیث میں محتلف اعتبار سے تطبیق دی ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح  عمدۃ القاری میں نقل کیا ہے کہ: قیام (کسی کے لیے کھڑے ہونے) کی چار قسمیں لکھی ہیں: (۱) ممنوع (۲) مکروہ (۳)جائز (۴) مستحسن۔

(1)  ممنوع :  جو شخص تکبر  کی بناپر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے یہ پسند کرتاہو   کہ جب وہ آئے تو لوگ اس کے لیے کھڑے ہوجائیں، یہ ناجائز ہے۔

(2)مکروہ :  جس شخص کے دل میں تکبر نہ ہو اور  نہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے چاہے کہ اس کے لیے لوگ کھڑے ہوں، لیکن کھڑا ہونے والا یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ کھڑا نہیں ہوا تو کچھ نقصان ہوسکتا ہے، یہ  قیام نا پسندیدہ  ہے۔

(3) جائز : نیکی اور اعزاز واکرام  کی غرض سے کسی کے لیے کھڑا ہونا جب کہ اُس کی طرف سے کھڑے ہونے کی کوئی خواہش  نہیں، یہ جائز ہے۔

(4) مستحسن:  کوئی سفر سے آیا تو خوشی کے باعث  سلام ومصافحہ  یا معانقہ کے لیے کھڑے ہوجانا، یا کسی کو کوئی نعمت ہاتھ آگئی، اس کو مبارک باد دینے کے لیے کھڑے ہونا یا کوئی مصیبت آن پڑی تو تسلی ودلاسہ  دینے کے لیے کھڑے ہوجانا، یہ مستحسن ہے۔

شراحِ  حدیث اور فقہاءِ  کرام کی اس مسئلہ سے متعلق  عبارتوں سے  یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی قابل شخص کی تعظیم کے لیے، یا کسی عادل بادشاہ کے آنے پر  رعایا کا، یا استاذ کےآنے پر طلبہ کا، یا بزرگ شخصیت کے احترام کے لیے،  یا بیوی کا شوہر کے لیے، اولاد کا والدین کے لیے،  یا قرابت دار کے احترام میں، یا آنے  والے کے سلام یا مصافحہ کرنے کے لیے  کھڑا  ہونا، جائز ہے، بلکہ بعض مواقع پر مستحب ہے، البتہ  جس کے لیے کھڑا ہواجائے اس کے دل میں بڑائی یا تکبر کی وجہ سے اپنے لیے کھڑے ہونے کی خواہش نہ ہو، اور کھڑے ہونے والا اس کے شر یا مفسدہ سے بچنے کے لیے کھڑا نہ ہو۔

جب کہ اس شخص کے لیے کھڑا ہونا جو اپنے لیے کھڑا ہونے کو پسند کرتا ہو، یا جس کے لیے کھڑا نہ ہونے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہو، یا وہ کوئی فاسق فاجر شخص ہو، یا اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر مستقل کھڑا رہا جائے جیساکہ عجمی بادشاہوں کا طرز ہے، یا جب تک آنے والا شخص نہ بیٹھ جائے اس کے سامنے کھڑا رہنا ضروری ہو اور نہ کھڑے ہونے پر عتاب ہو، یہ جائز نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مدرسے کے ذمہ دار کے لیے اس کے احترام کی غرض سے اگر کھڑا ہوا جائے، اور اس شخص میں اوپر ذکر کردہ مفاسد نہ پائے جائیں  ، تو کھڑے ہونے میں  کوئی مضائقہ نہیں۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"وعن أبي الوليد بن رشد: ‌أن ‌القيام على أربعة أوجه: الأول: محظور، وهو أن يقع لمن يريد أن يقام إليه تكبرا وتعاظما على القائمين إليه. والثاني: مكروه وهو أن يقع لمن لا يتكبر ولا يتعاظم على القائمين، ولكن يخشى أن يدخل نفسه بسبب ذلك ما يحذر، ولما فيه من التشبه بالجبابرة. والثالث: جائز وهو أن يقع على سبيل البر والإكرام لمن لا يريد ذلك، ويؤمن معه التشبه بالجبابرة. والرابع: مندوب وهو أن يقوم لمن قدم من سفر فرحا بقدومه ليسلم عليه أو إلى من تجددت له نعمة فيهنيه بحصولها. أو مصيبة فيعزيه بسببها."

(كتاب الأدب، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: قوموا إلى سيدكم، ج: 22، ص: 252، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قوله يجوز ‌بل ‌يندب ‌القيام تعظيما للقادم إلخ) أي إن كان ممن يستحق التعظيم قال في القنية: قيام الجالس في المسجد لمن دخل عليه تعظيما، وقيام قارئ القرآن لمن يجيء تعظيما لا يكره إذا كان ممن يستحق التعظيم، وفي مشكل الآثار القيام لغيره ليس بمكروه لعينه إنما المكروه محبة القيام لمن يقام له، فإن قام لمن لا يقام له لا يكره. قال ابن وهبان أقول: وفي عصرنا ينبغي أن يستحب ذلك أي القيام لما يورث تركه من الحقد والبغضاء والعداوة لا سيما إذا كان في مكان اعتيد فيه القيام، وما ورد من التوعد عليه في حق من يحب القيام بين يديه كما يفعله الترك والأعاجم اهـ. قلت: يؤيده ما في العناية وغيرها عن الشيخ الحكيم أبي القاسم كان إذا دخل عليه غني يقوم له ويعظمه، ولا يقوم للفقراء وطلبة العلم فقيل له في ذلك، فقال الغني يتوقع مني التعظيم، فلو تركته لتضرر والفقراء والطلبة إنما يطمعون في جواب السلام والكلام معهم في العلم، وتمام ذلك في رسالة الشرنبلالي."

(كتاب الحظر و الإباحة، باب الاستبراء وغيره، ج: 6، ص: 384، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101965

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں