بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو القعدة 1446ھ 15 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

غیر آباد زمین کے آباد کرنے اور دوسرے کے حق پر قبضہ کرنے کا حکم


سوال

1۔ہمارے گاؤں میں کچھ زمینیں ایسی ہیں ،جن کے اصل مالک معلوم نہیں ہوتے،ایسی زمین پر لوگ قبضہ کر لیتے ہیں اور اس میں محنت کر کے فصل اگاتے ہیں،پھر جو نفع ہوتا ہے ،وہ قابض اپنے استعمال میں لاتا ہے،بعض لوگوں نے تقریباً پندرہ سالوں سے قبضہ کیا ہوا ہے،جب اصل مالک معلوم نہ ہوتو یہ زمینیں علاقہ والوں کی مشترکہ کہلائیں گی یاقبضہ کرنے والےکی شمار ہوں گی؟

2۔ایک شخص کا انتقال ہوا،اس کے ورثاء میں ایک وارث کل ترکہ پر قابض ہے،دوسرے ورثاء کو حصہ نہیں دے رہا،کیا اس صورت میں دیگر ورثاء خفیہ طور پر ترکہ میں سے اپنا حصہ لے سکتے ہیں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ جو زمینیں  عرصہ دراز سے غیر آباد پڑی ہیں،کسی کی ملکیت نہیں اور قریب کے گاؤں کے مصالح و منافع اس سے متعلق نہیں،تو حکومت کی اجازت سے جو ان زمینوں  کو آباد کرےگا،وہ ان کا مالک بن جاۓگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جن  لوگوں نے حکومت کی اجازت کے بغیر مذکورہ زمینوں پر قبضہ کیا ہیں  ،وہ شرعاً  ان کے مالک نہیں ،بل کہ  حکومت کی اجازت سےجو لوگ ان زمینوں کو آباد کریں گے،یعنی سرکار سے اپنے نام کروائیں گے،وہ ان  کے مالک بن جائیں گے۔

2۔وراثت میں ہر وارث اپنے شرعی حصے کے بقدر شریک ہوتا ہے، کسی وارث کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دیگرورثاء  کی حق تلفی کر ے یا ان کو وراثت سے محروم کرے،کسی کاحق مارنا یا کسی کے حق پر قبضہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اور جو شخص کسی کا واجب حق ادا کرنے پر قادرہوکر بھی ادا نہ کرے وہ ظالم، غاصب  اور سخت گناہ گار ہے؛ لہذا صاحبِ حق  شرعی حدود میں رہتے ہوئے اپنے حق کی واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے، اگر غاصب زبانی مطالبے سے ادا نہ کرے تو سماجی اثر و رسوخ استعمال کرے، اگر کسی بھی طرح حق واپس دینے پر راضی نہ ہو تو صاحبِ حق کو  قانونی چارہ جوئی کی شرعاً اجازت ہے۔

اور وراثت ميں  اگر مال ہے، یعنی واقعۃً کسی نے دوسرے کا مال دبالیا ہے، اور قانونی کار روائی کے ذریعے بھی اس کا حصول ممکن نہ ہو ، ایسی صورت میں اگر غاصب کا مال صاحبِ حق کے پاس آئے تو  وہ اپنی رقم کے بقدر اس میں سے وصول کرسکتاہے، حق سے  زیادہ وصول کرنا جائز نہیں ہوگا، یہ یاد رہے کہ اس آخری مرحلے سے پہلے دیگر ذرائع استعمال کرے، اگر ہر طرف سے مایوسی ہوجائے تو اس پر عمل کرسکتاہے۔
نیز حدیث میں ایسے شخص کے بارے میں بڑی وعیدیں آئیں ہیں ،حضورﷺ نے فرمایا کہ  "جس نے زمین میں سے ایک بالشت بھی ظلم کرتے ہوئے حاصل کی، قیامت کے دن اسے سات زمینوں سے طوق پہنایا جائے گا۔"

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (من أحيا أرضا ميتة ) أي: غير مملوكة لمسلم، ولم يتعلق لمصلحة بلدة أو قرية بأن يكون مركض دوابهم مثلا (" فهي له ") ، أي: صارت تلك الأرض مملوكة له، لكن إذن الإمام شرط له عند أبي حنيفة رحمه الله ."

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، 1973/5، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق."

(كتاب السرقة، 95/4، ط:سعید)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :من أخذ شبرا من الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين ." متفق عليه.

" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کہ جس نے زمین میں سے ایک بالشت بھی ظلم کرتے ہوئے حاصل کی ،قیامت کے دن اسے سات زمینوں سے طوق پہنایا جائے گا۔"

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، 887/2، ط:المکتب الاسلامی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603101813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں