بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غائب مفقود شخص کی بیوی کے لیے فسخ نکاح کا حکم


سوال

میری بہن کا نکاح  2013 ء میں  ہوا تھا،لڑکا کینیڈا میں رہتا تھا،یہاں آکر نکاح کیا اور کینیڈا چلا گیا،اس نے کہاں تھا کہ ویزا وغیرہ بھیج کر کینیڈا بلوالے گا،لیکن معاملہ تین سال تک ایسے ہی لٹکا رہا اور وہ ادھر ادھر کے بہانے بناتا رہا،اب چار پانچ سال سے کوئی رابطہ نہیں ہے ،ہمیں نہیں پتہ کے کہاں ہے ،میری بہن آٹھ سال سے گھر میں بیٹھی ہوئی ہے ،اس دوران شوہر نے نہ مہر ادا کیا ہے اور نہ نان و نفقہ وغیرہ بھیجا ہے،میری بہن میرے ساتھ رہتی ہے۔ اب میری بہن خاندان کے ایک صاحب سے شادی کرنا چاہتی ہے اور انہوں نے ہی پیغام دیا ہے ،کیوں کہ ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے اور چار بیٹیاں تھیں ،جو رخصت ہوگئی ہیں، اور ان کی عمر باسٹھ سال ہے اور میری بہن کی عمر باون سال ہے۔ کیا ہم اپنی بہن کا نکاح مذکورہ صاحب سے کر سکتے ہیں ؟اگر نہیں کرسکتے تو پہلے شوہر سے نکاح فسخ کراونے کا شرعی طریقہ تفصیل سے بتادیں تاکہ اس کے بعد ہم اپنی بہن کو رخصت کر سکیں اور وہ اپنا گھر بسا سکے۔ واضح رہے کہ ہم نے عدالت میں دو سال قبل خلع کا مقدمہ دائر کیا تھا،لیکن لڑکا یا اس کی طرف سے کوئی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوتا تھا تو عدالت نے مقدمہ خارج کردیا ہے۔ہماری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بہن کےلیے اصل حکم تو یہ ہے کہ وہ عفت وعصمت کے ساتھ اپنی زندگی گزارے، لیکن اگر اس کے لیے  شوہر کے بغیر  عفت و پاکدامنی  کے ساتھ رہنا مشکل ہےتو وہ  مفقود(لاپتہ) شوہر کے نکاح  سے رہائی حاصل کرنے لیے درج ذیل صورت اختیار  کرسکتی ہے:
سائل کی بہن اپنا مقدمہ مسلمان قاضی کی عدالت میں پیش کرے اور گواہوں سے ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص کے ساتھ ہوا تھا اور تا حال قائم ہے(نکاح کے عینی گواہ ضروری نہیں، بلکہ عام شہرت  کی بنیاد پر بھی گواہی دی جا سکتی ہے ) پھر گواہوں کے ذریعے اس کا مفقود اور لاپتہ  ہونا ثابت کرے، اس کے بعد عدالت خود اپنے طور پر اس کی تفتیش وتلاش کرے، جہاں اس کے جانے کا غالب گمان ہو وہاں آدمی بھیجا جائے، اور جس جس جگہ جانے کا غالب گمان نہ ہو صرف احتمال ہو وہاں خط ارسا ل کرنے کو کافی سمجھے،   الغرض ہر ممکن کوشش کرے اور جب پتہ چلنے سے مایوسی ہوجائے تو چوں کہ چار سے پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے تو قاضی مزید مہلت دیے بغیر اس وقت بھی نکاح ختم کرسکتا ہے ، اسی طرح اگر گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ تو نہیں،لیکن لاپتہ شوہر کا اتنا مال موجود نہیں جو ان چار سالوں میں اس کی بیوی کے نان و نفقہ کے لیے کافی ہو، یا بیوی کے لیے مفقود کے مال سے نان ونفقہ حاصل کرنا مشکل ہو تو اس صورت میں اگر نان ونفقہ کے بغیر کم از کم ایک ماہ گزرا ہو تو قاضی نکاح ختم کرسکتا ہے۔

اگر سائل کی بہن  قاضی کے تلاش کے بعد چار سال سے کم میں اپنے نکاح کو فسخ کرواتی ہےاوپر ذکرکردہ دونوں صورتوں میں سائل کی بہن عدتِ وفات کے بجائے عدتِ طلاق( یعنی پوری تین ماہواریاں) گزارے گی، جو قاضی کے فیصلے کے وقت سے شمار ہوگی۔

البتہ اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو سائل کی بہن کا نکاح اس کے  پہلے شوہر سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛  اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی لازم ہوگی۔ اور اگر  دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی ہو تو  پہلے شوہر کو اس کے ساتھ صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:

’’اس صورت میں عورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ عدالت میں دعویٰ تفریق بوجہ مفقود الخبری شوہر دائر کرے، حاکم بعد تحقیقات ایک سال کی مدت انتظار کے لیے مقرر کردے، اگر اس عرصہ میں زوجِ غائب نہ آئے تو نکاح فسخ کردے، تاریخِ فسخ سے عدت گزار کر دوسرا نکاح کرلے۔ ایک سال کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ذرائعِ رسل ورسائل کا وسیع ہونا اس شرط کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ذرائع کی وسعت اس امر کو لازم ہے کہ گم شدہ شوہر کا پتا معلوم ہوجائے کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں،آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے متعلق معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، تمام ذرائع استعمال کرلیے جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیا جاتاہے، لیکن بعد میں فیصلہ غلط ہوتاہے،غرض یہ کہ ایک سال کی مدت اس مصلحت کے لیے ہے کہ امکانی حد تک شوہر کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچاجائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘

حیلۃ ناجزۃ میں ہے:

"وأما المفقود في بلاد الإسلام الي قوله فلها ان ترفع امرها الي الخليفةأو القاضي أو من يقوم مقامهما في عدمهما ليتفحصوا من حال زوجها بعد أن تثبت الزوجيةوغيبة الزوج والبقاء في العصمة ال الآن الخ"

 (الرواية الأولی،ص:127)

 تکملة فتح الملهم  میں ہے:

"ولکنها لم تسد باب الفرقة  من جهة المرأة بالكلية ،وانما اباحت لها  ذلك في ظروف خاصة ،الي قوله فلها ان تطلب من القاضي اذا كان زوجها عنينا او مجنونا او متعنتا او مفقودا۔"

(كتاب الطلاق/ 1 /100 / ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں