اگر کوئی شخص دنیاوی فائدہ کے لیے کسی ایسے ملک میں مستقل سکونت کا طلب گار ہے جہاں غیر مسلم لوگوں کی اکثریت ہے اور حکومت پر اور وہاں کے قوانین پر بھی اطلاق انہیں لوگوں کا ہے جو مسلمانوں اور اسلام سے نابلد لوگ ہیں غیر اسلامی شعائر جہاں رائج ہیں ، دنیاوی فائدے میں مندرجہ ذیل باتیں ہیں۔
(1)مال اور روزگار میں وسعت کی طلب۔
(2)بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بلند کرنا۔
(3)اپنے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے شہرت حاصل کر نا۔
(4)بچوں کو پاکستان کے متزلزل حالات سے محفوظ کرنے کے لیے اور غیر یقینی صورت حال سے بچنے کے لیے جس میں بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی شامل ہے۔
(5)اپنا مال اور سرمایہ محفوظ کرنے کے لیے یہاں کے حالات میں اندیشہ ہے کہ نقصان پہنچے۔
ان تمام امور کی وجہ سے جن میں سے اکثر دنیاوی فائدے سے متعلق ہیں، کیا مجھے کوئی رعایت حاصل ہے کہ کسی ترقی یافتہ ملک میں( جہاں غیر مسلم لوگوں کی اکثریت ہوں) سکونت اختیار کرسکوں؟
غیرمسلم ممالک میں رہائش اور وہاں کی شہریت اختیار کرنے کا مدار زمانہ و حالات اور رہائش رکھنے والے کی اغراض و مقاصد پر ہے، ان کے مختلف ہونے سے حکم مختلف ہوجاتا ہے ۔جس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
1- اپنے ملک کے اَبتر حالات اور ظلم و ستم میں اگر کسی شخص کی جان و مال کی حفاظت مشکل ہوجائے اور ان مشکلات کی بنا پر وہ دارالکفر میں رہائش اختیار کرتا ہے اور وہاں پر بذاتِ خود اپنے دین پر کاربند رہ سکتا ہے اور وہاں کے منکرات و فواحش سے خود کو اور اپنی بچوں کو محفوظ رکھ سکتا ہے تو اس کے لیے وہاں رہائش اختیار کرنے کی اجازت ہے، جیساکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اپنے وطن میں مذہب کی بنیادپرانتقامی کارروائیوں اور حالات سے تنگ آکر جان کے تحفظ کے لیے اپنے حق میں نرم گوشہ رکھنے والے غیر مسلم ملک( حبشہ)میں پناہ لی تھی۔
2- اسلامی ممالک میں تلاشِ بسیار کے باوجود معاشی مسائل کا حل نہ ہوسکے اور غیر مسلم ملک میں جائز ملازمت اختیار کرنے کی غرض سے وہاں جائے تو یہ بھی جائز ہے، بشرطیکہ وہاں دین پر کاربند رہے۔
3- کفار کو تبلیغِ دین اور اہلِ اسلام کی اصلاح کے لیے جانا نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ محمود ومستحسن بھی ہے۔متعدد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسی غرض سے غیر مسلم ملک میں سکونت اختیار کی اور وہیں انتقال ہوا ۔
4- دارالکفر بے حیائی کے طوفان میں گھرا ہوا ہو،اور کوئی شخص کسی نیک یا دینی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ معیارِ زندگی بلند کرنے اور خوش حالی و عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے وہاں جاتا ہے، یہ ترکِ وطن کراہت سے خالی نہیں، بلکہ خود کو منکرات و فواحش کے طوفان میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ بے حیائی اور فحاشی اور دیگر منکرات کی موجودگی میں مسلمان کافروں کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور دین سے دور نکل جاتاہے۔اسی بنا پر حضورِ اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے کفار کے درمیان اقامت اختیار کرنے کوکفار کی مماثلت قرار دیا۔
جیساکہ ابو داؤد میں ہے:
"قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم:’’ من جامع المشرك وسکن معه فإنه مثله‘‘. آخر کتاب الجهاد."
( کتاب الجهاد، باب في الإقامة بأرض المشرك، ج:2، ص:385، ط: میر محمد کتب خانه)
حدیثِ مذکور میں اجتماع سے مراد اُن کے ملک وشہر میں ایک ساتھ رہناہے، اسی بنا پر فقہا نے صرف ملازمت کے لیے دارالحرب جانے کو ناجائز لکھا ہے۔
5- مسلمانوں پر بڑائی کے اظہار کے لیے دارالکفر کو دارا لا سلام پر ترجیح دینا، گویا کفار کے طرزِ زندگی میں ان جیسا بننے کے لیے ایسا کرنا ہے، جو کہ شرعاً حرام ہے۔
جیساکہ مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"من تشبه بقوم فهو منهم."
( کتاب اللباس، الفصل الثاني، ج:2، ص:375، ط: قدیمی کراچی)
6- رہا علاج کے لیے جانا، ظاہر ہے کہ یہ اہم ضرورت ہے، اگر اپنے وطن میں ناممکن ہو تو بہرصورت جانا جائز ہوگا۔
7- جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے، یہ بڑا سنجیدہ اور سنگین مسئلہ ہے، ظاہر ہے اس کے لیے رہائش اختیار کرنا ضروری ہے، جن صورتوں میں رہائش اختیار کرنا مکرو ہ یا حرام ہے ان صورتوں میں تعلیم کے لیے جانا اور وہاں رہنا بھی مکروہ یا حرام ہوگا، اور جن صورتوں میں رہائش جائز ہے،ان صورتوں میں تعلیمی سفر بھی جائزہوگا۔
تاہم اس حوالے سے خصوصی توجہ کا اہتمام ضروری ہے،اگر دینی، دنیوی اور تعلیمی ضروریات اپنے ملک میں پوری ہوسکتی ہوں تو بلا شبہ اس گندے ماحول سے دور رہا جائے۔
(فتاوی بینات،جلد سوم، عنوان: مغربی ممالک کی شہریت لینے کا حکم، جلد:3،ص:372تا378، ط:مکتبہ بینات)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401101827
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن