بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاہک سے پیسے لینے کے بعد سامان خرید کر اسے دینے کا حکم


سوال

کسٹمر سے پیسے لینے کے بعد پروڈکٹ خرید کر اسے بھیج دیں، آرڈر سے پہلے کسٹمر کو بتا دیں کہ پروڈکٹ ابھی ہمارے پاس نہیں ہے، ہم آپ کے آرڈر کے بعد کسی اور سے خرید کر آپ کو بھیج دیں گے، ایسا کاروبار جائز ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ  اگر بائع (فروخت کرنے والا) مشتری (خریدار) سے یہ کہہ دے کہ یہ سامان فی الحال میری ملکیت میں نہیں، اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں، یوں بائع اس سامان کو خرید کر اپنے قبضہ میں لے کر، پھر  باقاعدہ سودا کرکے مشتری کو فروخت کرے تو یہ کاروبار جائز ہے۔

اور اگر وہ چیز ملکیت میں نہ ہو اور گاہگ کو بتا بھی دے، مگر اس کے ساتھ سامان ہاتھ میں آنے سے پہلے حتمی سودا کردے تو یہ صورت جائز نہیں ہے۔

اسی طرح  اگر وہ سامان بیچنے والے کی ملکیت میں ہے ہی نہیں اور وہ محض اشتہار، تصویر دکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ "فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی"، وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان، اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں مبیع (سامان) موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔

اس معاملے کے جواز کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بجائے خرید و فروخت کا معاملہ کرنے کے اجارے کا معاملہ کیا جائے، یعنی کسٹمر کو بتادیا جائے کہ یہ چیز میرے پاس نہیں ہے، میں یہ چیز اتنے میں خرید کر آپ کو اسی قیمت میں دوں گا، البتہ میری اتنی اجرت ہوگی۔

الہدایہ فی شرح البدایہ میں ہے:

"وَمَنْ اشْتَرَى شَيْئًا مِمَّا يُنْقَلُ وَيُحَوَّلُ لَمْ يَجُزْ لَهُ بَيْعُهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ؛ لِأَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ نَهَى عَنْ بَيْعِ مَا لَمْ يُقْبَضْ وَ لِأَنَّ فِيهِ غَرَرَ انْفِسَاخِ الْعَقْدِ عَلَى اعْتِبَارِ الْهَلَاكِ".

(باب المرابحة والتولية، ج:3، ص:77، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200905

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں