بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر تم والد کے پاس گئی تو تم فارغ ہو، بیوی سے کہنا


سوال

1-میری اپنی بیوی کے ساتھ کسی بات پر معمولی تکرار ہوئی، جس پر میری بیوی نے کہا کہ میں جاکر والد یعنی (اپنے سسر) کو بتاتی ہوں، میں نے اپنی بیوی کو منع کیا کہ نہیں بتاؤ، لیکن وہ منع نہیں ہوئی، اور میرے والد کے پاس جانے لگی، تو میں بغیر نیت طلاق کے صرف ڈرانے ،اور روکنے کے لیے یہ کہہ دیا کہ "اگر تم والد کے پاس گئی تو تم میری طرف سے فارغ ہو"، جب کہ اس تکرار ،اور بحث کے دوران طلاق کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا ہے، اور نہ ہی میری طلاق کی نیت تھی  تو کیا اس صورت میں طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟

2-اگر طلاق واقع ہوگئی تو کتنی اور کون سی طلاق واقع ہوئی ہے،اور رجوع کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیان کے مطابق  اگر سائل نے  یہ الفاظ "اگر تم والد کے پاس گئی تو تم میری طرف سے فارغ ہو"   تو چوں کہ  مذاکرہ طلاق یا طلاق کی نیت سے نہیں کہا تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ونحو خلية برية حرام يصلح سبًّا (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط)".

(كتاب الطلاق،‌‌ باب الكنايات، ٢٩٨/٣، ط: سعید)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144412101370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں