بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت گھر سے - 300 -کلو میٹر دور ہے میں مہینے بعد چار دن کیلئے جاتا ہوں کیا گھر میں نماز قصر پڑھوں گا یا پوری ۔


سوال

میری ملازمت گھر سے  -  300 -کلو میٹر دور ہے میں مہینے بعد چار دن کیلئے جاتا ہوں کیا گھر میں نماز قصر پڑھوں گا یا پوری اگر میں واپسی ڈیوٹی پر آ تا ہوں تو کیا تین دن نماز قصر پڑھ سکتا ہوں یا پہلے دن سے پوری پڑھنی ہو گی ؟

جواب

واضح رہے کہ وطن اصلی بدلنے کی صورت صرف یہ ہے کہ انسان وطن اصلی کی جگہ چھوڑکر اہل وعیال کے ساتھ کسی دوسرے شہر یا بستی میں منتقل ہو جائے ،اور وہیں عمر گزارنے کا ارادہ کرے ، پرانے علاقے میں مستقل رہائش کا ارادہ ختم ہو جائے،  تو اس صورت میں یہ دوسرا علاقہ  وطن اصلی بن جائے گا اور جس جگہ کو  چھوڑ دیاہے وہ وطن باقی نہیں رہے گا ، ایسی صورت میں جب بھی وہان پندر دن سے کم ٹھہر نے کی نیت سے جائے گا تو قصر کرے گا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ  میں سائل  چوں کہ محض ملازمت کے لیے دوسرے علاقے میں ر ہائش پذیر ہے   باقی اہل وعیال سب  گھر   میں  ہیں  اور سائل کا مستقل رہنے کا ارادہ بھی وہی ہے  تو  سائل جب بھی  گھر جائے گا  مقیم ہوگا  اگر چہ پندرہ دن سے کم کے لیے جائے؛  لہذا  وہاں پور ی نماز ادا کرنی ہوگی، اور  ملازمت  کی جگہ پر آنے کے بعد  بھی  نماز  مکمل پڑھنی ہوگی،  تین دن تک قصر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"مطلب في أن الأوطان ثلاثة (ثم) الأوطان ثلاثة: وطن أصلي: وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها.....، فالوطن الأصلي ينتقض بمثله لا غير وهو: أن يتوطن الإنسان في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها من بلدته فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا، حتى لو دخل فيه مسافرا لا تصير صلاته أربعا."

(كتاب الصلاة،فصل بيان ما يصير المسافر به مقيما،٣١٠/١، ط: دار الكتب العلمية)

البحرالرائق میں ہے:

"والوطن الأصلي هو ‌وطن ‌الإنسان ‌في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير، وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا حتى لو دخله مسافرا لا يتم قيدنا بكونه انتقل عن الأول بأهله؛ لأنه لو لم ينتقل بهم، ولكنه استحدث أهلا في بلدة أخرى فإن الأول لم يبطل ويتم فيهما وقيد بقوله بمثله؛ لأنه لو باع داره ونقل عياله وخرج يريد أن يتوطن بلدة أخرى ثم بدا له أن لا يتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدة غيرها فمر ببلده الأول فإنه يصلي أربعا؛ لأنه لم يتوطن غيره، وفي المحيط، ولو كان له أهل بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ا."

(باب صلاة المسافر،‌‌اقتداء مسافر بمقيم في الصلاة،١٤٧/٢،ط: دار الكتاب الإسلامي)

العنایۃ شرح الھدایہ میں ہے:

"(ومن كان له وطن فانتقل عنه واستوطن غيره ثم سافر ‌ودخل ‌وطنه الأول قصر) ؛ لأنه لم يبق وطنا له؛ ألا ترى أنه عليه الصلاة والسلام بعد الهجرة عد نفسه بمكة من المسافرين؛ وهذا لأن الأصل أن الوطن الأصلي يبطل بمثله دون."

(كتاب الصلاة،‌‌باب صلاة السفر،٤٣/٢،ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144501101275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں