بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو الحجة 1446ھ 14 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

لقطہ اگر کسی کو گفٹ کو دیا تو کیا حکم ہے ؟


سوال

میں راستے پر جا رہی تھی تو مجھے ایک انگوٹھی ملی۔ پھر میں نے وہ انگوٹھی اپنی بیٹی کو تحفے کے طور پر دے دی۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ اس انگوٹھی کا کیا حکم ہے؟ اور اس کی زکاۃ کس پر لازم ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئلہ میں  مذکورہ انگوٹھی  جو آپ کو راستے میں ملی تھی شرعاً اس کا حکم "لُقطہ" (یعنی گم شدہ چیز) کا ہے۔ لقطہ کا حکم یہ ہے کہ جسے کوئی گم شدہ چیز ملے، وہ اس کے مالک تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرے اور مناسب طریقے سے اعلان کرے،خاص کر اگر کوئی قیمتی چیز ہو ،تو اس اعلان کی مدت فقہاء کرام نے یہ تحریر کی ہے کہ کم از کم ایک سال  تشہیر کی جائے ،اگر اس  اعلان کے باوجود مالک نہ ملے اور غالب گمان یہ ہو کہ اب مالک کا ملنا ممکن نہیں، اور مزید وقت تک اس کی حفاظت مشکل ہو، تو ایسی صورت میں اس چیز کو صدقہ کرنا واجب ہے۔

اگر وہ شخص جسے یہ چیز ملی ہے، فقیر (یعنی زکوٰۃ کا مستحق) ہے، تو وہ خود بھی اس چیز کو استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ فقیر نہیں ہے، تو خود استعمال کرنا جائز نہیں، بلکہ اسے صدقہ کرنا ہوگا۔اگر اس شخص نے انگوٹھی استعمال کر لی یا کسی فقیر کو دے دی، اور بعد میں اصل مالک آ گیا اور اپنی چیز یا اس کی قیمت کا مطالبہ کیا، تو اس پر تاوان (یعنی قیمت) ادا کرنا لازم ہوگا۔

لہٰذااولاً آپ پر لازم تھا کہ جہاں یہ انگوٹھی ملی تھی وہاں اس کے مالک کی ممکنہ طور پر تلاش کی جاتی ، معلومات لی جاتیں ، تاہم اگر اب مالک کے ملنے کی کوئی امید نہ ہو تو اگر آپ کی بیٹی تنگ دست ہیں اور تحفے کے طور پر دیتے وقت صدقے کی نیت تھی، تو یہ صدقہ شمار ہوگا اور وہی بیٹی اس کی مالک بن جائے گی۔ بعد میں اگر وہ صاحبِ نصاب بن جاتی ہے، تو اس  انگوٹھی پر زکات  بیٹی پر ہی واجب ہوگی۔ لیکن اگر بیٹی تنگ دست نہیں ہے، تو یہ تحفہ دینا درست نہیں ہوگا، بلکہ اسے کسی مستحق کو مالک کی طرف سے بطور صدقہ  کے دینا ضروری ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"[كتاب اللقطةهي مال يوجد في الطريق ولا يعرف له مالك بعينه، كذا في الكافي التقاط اللقطة.

وإذا رفع اللقطة يعرفها فيقول: التقطت لقطة، أو وجدت ضالة، أو عندي شيء فمن سمعتموه يطلب دلوه علي، كذا في فتاوى قاضي خان. ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين."

(کتاب اللقطة، ج: 2، ص: 289/290، ط: دارالفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"( وعرف ) أي نادى عليها حيث وجدها وفي المجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبهاأو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة ) والثمار ( كانت أمانة ) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد وقبل الثاني قوله بيمينه وبه نأخذ حاوي وأقره المصنف وغيره ( ولو من الحرم أو قليلة أو كثيرة ) فلا فرق بين مكان ومكان ولقطة ولقطة ( فينتفع) الرافع ( بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال ) تاترخانية و في القنية لو رجا وجود المالك وجب الإيصاء ( فإن جاء مالكها ) بعد التصدق ( خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها ( أو تضمينه )".

و في الرد:

"(قوله: ولقطة ولقطة ) أي لا فرق بينهما أي في وجوب أصل التعريف ليناسب قوله إلى أن علم أن صاحبها لايطلبها؛ فإنه يقتضي تعريف كل لقطة بما يناسبها بخلاف ما مر عن ظاهر الرواية من التعريف حولاً للكل".

(کتاب اللقطة،ج:4 ،ص: 278، ط: سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وإذا رفع اللقطة يعرفها ويقول: التقطت لقطة أو وجدت ضالة أو عندي شيء فمن سمعتموه يطلب فدلوه علي، واختلفت الروايات في هذا التعريف قال محمد في الكتاب: يعرفها حولا ولم يفصل فيما إذا كانت اللقطة قليلة أو كثيرة، وعن أبي حنيفة - رحمه الله - روايتان، في رواية: إن كانت مائتي درهم فما فوقها يعرفها حولا وإن كانت أقل من مائتي درهم عشرة فما فوقها يعرفها شهرا وإن كانت أقل من عشرة يعرفها ثلاثة أيام، وقال بعضهم: إلى خمسة يحفظها يوما واحدا، وفي الخمسة إلى العشرة يحفظها أياما، وقال بعضهم: إلى المائة يعرفها شهرا وفي المائة إلى المائتين يحفظها ستة أشهر وفي المائتين إلى الألف أو أكثر يحفظها حولا، وقال بعضهم: في الدرهم الواحد يحفظ ثلاثة أيام، وفي الدانق فصاعدا يحفظه يوما ويعرفه وإن كان دون ذلك ينظر يمنة ويسرة ثم يتصدق، وقال الإمام الأجل أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي: " ليس في هذا تقدير لازم بل يفوض إلى رأي الملتقط يعرف إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبه لا يطلبه بعد ذلك فبعد ذلك إن جاء صاحبها دفعها إليه وإن لم يجئ فهو بالخيار إن شاء أمسكها حتى يجيئ صاحبها وإن شاء تصدق بها "

(کتاب اللقطۃ،ج:5،ص:2020،ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100768

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں