بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومتی مقررہ حد سے زائد منزلیں تعمیر کرنا پھر متعلقہ محکمہ کا اس تعمیر کو مسمار کرنا اور محکمہ کا حد سے زائد تعمیر کرنے کی اجازت کے لیے پیسے لینے کا حکم


سوال

میں مکان ....  کی رہائشی ہوں، جوکہ 168 مربع گز پر مشتمل ہے، میں ایک بیوہ ہوں ،جس کے پانچ بچے ہیں، میرے شوہر کا تقریباً سترہ سال قبل 2006ء میں ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا ،میں اپنی شادی کے بعد 1980ء سے اسی پڑوس میں رہ رہی  ہوں، میری تیسری چھوٹی بیٹی، اور میرا بیٹا تین بچوں اور بہو کے ساتھ اس گھر میں رہتے ہیں،میری دوسری بیٹی زیادہ تر ہمارے ساتھ اس گھر میں اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ عموماً فیصل آباد سے آتی ہیں، وہ برین ٹیومر کی مریضہ  ہے اور .... سے اپنا علاج کرواتی ہے، میری سب سے بڑی بیٹی تین نواسوں کے ساتھ میرے گھر کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتی ہے، اس کے شوہر کی گزشتہ دو سال سے نوکری چلی گئی اور گھر کا کرایہ ادا کرنا ناممکن ہو گیا ہے ،یہ پورا علاقہ دو، تین، چار اور پانچ منزلوں اور پینٹ ہاؤسز پر مشتمل ہے، ماضی میں میرے قریبی پڑوسی نے مکمل تیسری منزل تعمیر کرالی ہے، محلے میں زیادہ تر لوگوں نے دو منزلوں سے زیادہ تعمیر کرائی ہے۔

میں نے چھت پر کمرے تعمیر کیے ،تاکہ میرا خاندان ایک جگہ ساتھ رہ سکے، اس عمر میں میں کسی دوسری جگہ شفٹ ہونے کی متحمل نہیں ہوں، اور نہ ہی اپنے بیٹے یا بیٹیوں کو اپنے سے دور جانے کے لیے کہہ سکتی ہوں، کیوں کہ میرے تین بڑے آپریشن کے بعد مجھے صحت کے متعدد مسائل درپیش ہیں اور زیادہ تر بستر پر دوائیں لے رہی ہوں ، میں ایک بیوہ عورت ہوں ،جو اپنے تمام بچوں کو ساتھ رکھنے اور اس مشکل سماجی اور مالی حالات میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہوں،سوسائٹی ،بلڈرز عطیات/سیکیورٹی ڈپازٹس وصول کر کے علاقے میں غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دیتی ہے اور بلڈر فلیٹ بنا کر منافع کے لیے فروخت کرتے ہیں ، اس کے علاوہ سیکرٹری کا اپنا مکان ہے، جہاں انہوں نے خود غیر قانونی تیسری منزل تعمیر کی ہے، اس نے ایک اور پڑوسی کو تیسری منزل کی تعمیر کی اجازت دی ،اور کچھ سال پہلے تعمیر کر کے منتقل ہو چکے ہیں، چوں کہ میں بوڑھی ہوں ،میرے پاس وسائل نہیں ہیں ، میرے پاس اس بڑھاپے میں لڑنے کی صلاحیت نہیں ہے،اس لیے وہ ہمیں ذہنی اور مالی اذیت دے رہے ہیں، جس سے میری صحت متاثر ہو رہی ہے، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے دباؤ میں  آکر میری چھت گرا دی اور سیکرٹری سے بات کرنے کو کہا تاکہ وہ بلیک میلنگ کو روک سکیں۔

میرا سوال یہ ہے :میری قانونی طور پر 99 سال کی لیز کی  گئی پراپرٹی ہے، شریعت کے مطابق گھر پر میرا شرعی حق کیا ہے؟  یہ گروہ جو پڑوسیوں کے لیے پریشانیاں پیدا کر رہا ہے اور 77 سال کی عمر میں مجھ سے تکلیف و ہنگامہ کھڑا کر کے، کون سی دشمنی ہے کہ آئے دن ہمارے خلاف کوئی نہ کوئی محاذ کھول دیتا ہے، ان کے بارے میں قرآن و حدیث کیا کہتی ہے؟اگر وہ دوسرے کمرشل بلڈرز کو فلیٹ بنانے کی اجازت دے رہے ہیں اور ہمیں بلیک میل کر رہے ہیں تو قبر اور قیامت میں فیصلے کے دن ان کا کیا حال ہو گا؟ان پر پڑوسی ہونے کے ناطے میرا کیا حق ہے؟ کیا انہیں ہمارے لیے پریشانیا ں پیدا کرنے کی بجائے ہماری مدد کرنی چاہیے؟ ہم یہاں بہت پرانے اور مذہبی لوگ ہیں، رقم کی بات ہم سے کر نہیں سکتے،اس لیے مسلسل تنگ کر رہے ہیں،ہماری پوری فیملی پریشان ہے، ایسے لوگوں کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟  مجھے اس مشکل وقت میں کیا کرنا چاہیے؟ اور میں اس کو کیسے حل کروں؟میری رات کی نیندختم ہو گئی ہے، اور شدید ہائی بلڈ پریشر اور بےچینی کی گولیاں کھا رہی ہوں، میں اب کافی بے بسی اور مایوسی محسوس  کر رہی ہوں، اور نہیں جانتی کہ کیا کروں؟

وضاحت:

1. مذکورہ علاقے میں سرکار کی جانب سے گراؤنڈ فلور کے علاوہ دو منزلوں کی اجازت ہے۔

2. سائلہ نے حکومتی مقررہ حد سے زیادہ تیسری منزل پر کمرے تعمیر کیے تھے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سرکاری محکمہ کی جانب سے زمینی منزل کے علاوہ دو منزلوں کی تعمیر کی اجازت ہے ، اور اس سے زائد کی قانوناً اجازت نہیں ہے ، تو ایسی صورت میں لوگوں کا متعلقہ محکمے کو رشوت دے کر قانونی حد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید منزلیں تعمیر کرنا شرعاً ناجائز ہے،نیز رشوت کا دینا اور لینا دونوں حرام ہے ، ایسی صورت میں کسی دوسرے کے ناجائز عمل کو بنیاد بنا کر رشوت کے لین دین اور قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

"سنن أبي داود" میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي."

(کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، رقم الحدیث:3580، ج:5، ص:433، ط:دار الرسالة العالمية)

"مشكاة المصابيح" میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ‌ألا ‌لا ‌يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، رقم الحديث:2946، ج:2، ص:889، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

"شرح المجلة لسليم رستم باز" میں ہے:

"وكذلك لو أحدث أحد بيدرا في قرب دار آخر وتأذى صاحب الدار من غبار البيدر بحيث أصبح لا يستطيع السكنى في الدار فيدفع ضرره، كما أنه لو أحدث أحد بناء مرتفعا في قرب بيدر آخر وسد مهب الريح فيزال لأنه ضرر فاحش. كذلك لو أحدث أحد مطبخا في سوق البزازين وكان دخان المطبخ يصيب أقمشة ويضرها فيدفع الضرر. وكذلك لو انشق بالوع دار أحد وجرى إلى دار جاره وكان في ذلك ضرر فاحش فيجب تعمير البلوغ المذكور وإصلاحه بناء على دعوى الجار."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب الثالث، الفصل الثاني في حق المعاملات الجوارية، المادة:1200، ج:1، ص:521، ط:رشيدية)

وفيه أيضا:

"(إذا كان لأحد داران على طرفي الطريق وأراد إنشاء جسر من واحدة إلى أخرى يمنع ولا يهدم بعد إنشائه إن لم يكن فيه ضرر على المارين لكن لا يكون لأحد حق قرار في الجسر والبروز المنشأين على الطريق العام على هذا الوجه، أما إذا انهدم الجسر المبني على الطريق العام بهذه الصورة وأراد صاحبه بناءه فيمنع أيضا)."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب الثالث، الفصل الثالث في الطرق، المادة:1213، ج:1، ص:526، ط:رشيدية)

"الموسوعة الفقهية الكويتية" میں ہے:

"إن كانت الطريق من أرض مملوكة يسبلها مالكها فتقدير مساحة الطريق إلى اختياره، والأفضل توسيعه، وعند الإحياء: إلى ما اتفق عليه المحيون، فإن تنازعوا جعل سبعة أذرع، لحديث أبي هريرة رضي الله عنه قال: قضى النبي إذا تشاجروا في الطريق الميتاء بسبعة أذرع، ورواه مسلم بلفظ: إذا اختلفتم في الطريق جعل عرضه سبعة أذرع."

(‌‌‌‌طریق، الأحكام المتعلقة بالطريق، قدر مساحة الطريق، ج:28، ص:346، ط:دار الصفوة)

"مجلة الأحكام العدلية" میں ہے:

"لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانیة، المادة:97، ج:1، ص:51، ط:نور محمد كارخانه تجارتِ كتب آرام باغ كراتشي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411102397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں