میرے والد صاحب (عمر 83 سال) صاحبِ جائیداد ہیں ۔ اپنی دو بہنوں کو انھوں نے آج سے بارہ سال پہلے حالات کی تنگی کی وجہ سے اپنے گھر پر رکھ لیا تھا ۔ ایک طلاق یافتہ اور ایک بیٹے کی ماں تھی، ان کا بیٹا بھی غیر ذمہ داربے روزگار رہا ہے اور دوسری غیر شادی شدہ ،میرے بڑے بھائی نے تین سال میں انھیں والدہ کی خوشی کی خاطر فتوی کے ذریعے گھر سے نکلوا دیا اوروہ در بدر رہی، اب ایک پھوپھو جو کہ صاحب اولاد تھی ان کا انتقال ہوگیا، تو میرے والدین نے رضا مندی ظاہر کی کہ غیر شادی شدہ پھوپھو کو اپنے پاس کراچی لے آتے ہیں ،جس پر میرے بڑے بھائی نے ماں باپ کو راضی کیا کہ ان کو یہاں نہیں لانا چاہیئےکہ ماں خوش نہیں رہتی اور جائیداد کے بیچنے میں بھی پھوپھو کی موجودگی کی وجہ سے مشکلات رہے گی،لہذا میرا بڑا بھائی میری اس پھوپھو کو لاہور کے کسی اولڈ ہوم میں داخل کروا آیا اور اب وہ کسی رشتہ دار کوبھی اس اولڈ ہوم کا پتہ وغیرہ نہیں دیتا ۔
یہ بتائے کہ ایسی بوڑھی عورت جو کہ غیر شادی شدہ ہے، ماں باپ اور باقی بہن بھائی سب انتقال کر چکے ہیں، میرے والد ہی ان کے حقیقی بھائی زندہ ہیں،ان کا ذمہ دار اب کون ہے ؟
واضح رہے کہ قرآن کریم میں اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی کے بارے میں بہت تاکید ملتی ہے، لہذا رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنی چاہیئے، اور ان کا جائز امور میں خیال کرنا چاہیئے،اور اِس کے برخلاف رشتہ ناطہ کو توڑدینا اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک حد درجہ مبغوض ہے، احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ دُنیا میں بالخصوص دو گناہ ایسے شدید تر ہیں جن کی سزا نہ صرف یہ کہ آخرت میں ہوگی، بلکہ دُنیا میں بھی پیشگی سزا کا ہونا بجا ہے: ایک ظلم، دُوسرا قطع رحمی، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے بڑے بھائی کا یہ عمل درست نہیں، سائل کے بھائی کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور اپنی پھوپھو سے بھی معافی مانگے ، اور سائل کی پھوپھی کا خرچہ ان کے مال ہونے کی صورت میں ان ہی کے مال سے ادا کیا جائے گا، اور مال نہ ہونے کی صورت میں ان کی ذمہ داری سائل کے والد پر ہوگی۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحب أن يبسط له في رزقه وينسأ له في أثره فليصل رحمه» . متفق عليه."
(كتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الأول، ج:3 ، ص:1377، رقم الحدیث:4918، المكتب الإسلامي بیروت)
ترجمہ”حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی موت میں تاخیر کی جائےیعنی اس کی عمر دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے“۔
(مظاہر حق جدید، ج:4، ص:469، ط:دارالإشاعت)
ایک اور جگہ روایت میں آتا ہے:
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خلق الله الخلق فلما فرغ منه قامت الرحم فأخذت بحقوي الرحمن فقال: مه؟ قالت: هذا مقام العائذ بك من القطيعة. قال: ألا ترضين أن أصل من وصلك وأقطع من قطعك؟ قالت: بلى يا رب قال: فذاك ". متفق عليه."
(مشکاۃ المصابیح، كتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الأول، ج:3 ،ص:1377، رقم الحدیث:4919، المكتب الإسلامي بیروت)
"ترجمہ:اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کر دیا جن پر وہ پیدا ہوں گی جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہوا اور پروردگار کی کمر تھام لی، پروردگار نے فرمایا کہ کیا چاہتا ہے ؟ رحم نے عرض کیا کہ یہ کاٹے جانے کے خوف سے تیری پناہ کے طلبگار -کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (یعنی کہ میں تیرے روبرو کھڑا ہوں اور تیرے دامن عزت و عظمت کی طرف دست سوال دراز کئے ہوں تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتا ہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن عزت و عظمت کی طرف دست سوال دراز کئے ہوں تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتا ہوں۔ کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کی بجائے اس کو تار تار کر دے) پروردگار نے فرمایا کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ جو شخص (رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعہ) تجھ کو قائم و برقرار رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان و انعام اور اجر و بخشش کے ذریعہ قائم و برقرار رکھوں اور جو شخص رشتہ داری اور تعلق کے حقوق کی پامالی کے ذریعہ تجھ کو منقطع کر دے میں بھی (اپنے احسان و انعام کا تعلق) اس سے منقطع کرلوں؟ رحم نے عرض کیا کہ پروردگارا! بیشک میں اس پر راضی ہوں پر وردگار نے فرمایا اچھا تو یہ وعدہ تیرے لئے ثابت و برقرار ہے۔"
(مظاہر حق جدید، ج:4، ص:470، ط:دارالإشاعت)
ایک اور روایت میں ہے:
"وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الرحم معلقة بالعرش تقول: من وصلني وصله الله ومن قطعني قطعه الله ". متفق عليه."
(مشکاۃ المصابیح، كتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الأول، ج:3 ،ص:1377، رقم الحدیث:4921، المكتب الإسلامي بیروت)
"ترجمہ:اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرما یا رحم یعنی نا تا عرش سے لڑکا ہوا ہے اور (بطریق دعا یا خبر دینے کے طور پر کہتا ہے کہ جو شخص مجھ کو جوڑے گا اس کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ جوڑے گا اور جو شخص مجھ کو توڑے گا اللہ تہ کو تعالیٰ اس کو اپنی رحمت سے جدا کرے گا۔"
(مظاہر حق جدید، ج:4، ص:473، ط:دارالإشاعت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) تجب أيضا (لكل ذي رحم محرم صغير أو أنثى) مطلقا (ولو) كانت الأنثى (بالغة) صحيحة (أو) كان الذكر (بالغا) لكن (عاجزا) عن الكسب (بنحو زمانة)كعمى وعته وفلج، زاد في الملتقى والمختار: أو لا يحسن الكسب لحرفة أو لكونه من ذوي البيوتات."
(کتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:628/627، ط:دارالفکر)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"والنفقة لكل ذي رحم محرم إذا كان صغيرا فقيرا، أو كانت امرأة بالغة فقيرة، أو كان ذكرا فقيرا زمنا."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الخامس في نفقة ذوي الأرحام، ج:1، ص:565، ط:دارالفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101597
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن