بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں جانے کا حکم


سوال

(1) كياغیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں جانا جائز ہے یا نہیں؟

(2) کیا حضور ﷺیا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین کبھی ایسے مقامات پر تشریف لے گئے ؟

جواب

(1) واضح رہے کہ اگر مسلمان کا غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں جانے کا مقصد کفریہ شعائر کا احترام ہویا سیر و تفریح مقصود ہو یاخصوصی طور پر کفار کے کسی مخصوص تہوار کے موقع پر ان کی عبادت گاہوں میں جایا جاۓتو ایسی تمام صورتوں میں  مسلمانوں کا  کفار کی عبادت گاہوں میں  جانا شرعاً جائزنہیں ہے،فقہاۓ  کرام نے ایسے شخص کو تعزیری سزا کا مستحق قرار دیا ہے جو کفار کی عبادت گاہ  میں مستقل  آمدو رفت رکھتا ہو،   البتہ اگر کوئی شخص   وہاں کسی سے ملاقات کرنے یا اور کسی ضرورت کے تحت وہاں جاۓتو اس کی گنجائش ہے۔

(2)حضور علیہ السلام سےغیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں جانا ثابت نہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ضرورت کی وجہ سےبیت المقدس کی فتح کے موقع پر عیسائیوں کے گرجے میں داخل ہوناکتبِ تاریخ میں منقول ہے، لیکن  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں عام طورپر آتے جاتے ہوں ،ایسی کوئی بات ہماری نظر سے نہیں گزری ۔

مصنف إبن أبی شیبه میں ہے:

"عن نافع عن أسلم قال: ‌لما ‌قدم ‌عمر الشام أتاه رجل من الدهاقين فقال: إني قد صنعت لك طعامًا فأحب أن تجيء فيرى أهل عملي كرامتي عليك ومنزلتي عندك -أو كما قال-: (قال): فقال: إنا لا ندخل هذه الكنائس، أو قال: هذه البيع التي فيها الصور."

(كتاب اللباس،في الصور في البيت، 83/14، ط:دار كنوز إشبيليا)

شرح النووی علی المسلم میں ہے:

"وفي هذا الحديث من الفقه التباعد من أهل الظلم والتحذير من مجالستهم ومجالسة البغاة ونحوهم من المبطلين لئلا يناله ما يعاقبون به وفيه أن من ‌كثر ‌سواد ‌قوم جرى عليه حكمهم في ظاهر عقوبات الدنيا."

(‌‌كتاب الفتن وأشراط الساعة،ج:18، ص:7، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"ففي البحر من كتاب الدعوى عند قول الكنز: ولا يحلفون في بيت عباداتهم. وفي التتارخانية يكره للمسلم الدخول في البيعة والكنيسة، وإنما يكره من حيث إنه ‌مجمع ‌الشياطين لا من حيث إنه ليس له حق الدخول اهـ قال في البحر: والظاهر أنها تحريمية؛ لأنها المرادة عند إطلاقهم، وقد أفتيت بتعزير مسلم لازم الكنيسة مع اليهود."

(كتاب الصلاة، 280/1، ط:سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"ويكره دخول كنائسهم يوم نيروزهم ومهرجانهم. قال ‌عمر رضي الله عنه: لا تدخلوا على المشركين في كنائسهم يوم عيدهم، فإن السخطة تنزل عليهم."

(دخول، الحكم التكليفي، ‌‌دخول المسلم الكنيسة والبيعة، 246/20، ط:وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - کویت)

تاریخ ابن خلدون میں ہے:

"ودخل عمر بن الخطاب بيت المقدس وجاء كنيسة القمامة (هي كنيسة القيامة) فجلس في صحنها، وحان وقت الصلاة فقال للبترك أريد الصلاة، فقال له: صلّ موضعك، فامتنع وصلّى على الدرجة التي على باب الكنيسة منفردا، فلمّا قضى صلاته قال للبترك لو صليت داخل الكنيسة أخذها المسلمون بعدي وقالوا هنا صلى عمر، وكتب لهم أن لا يجمع على الدرجة للصلاة ولا يؤذن عليها."

(‌‌الطبقة الثانية من العرب وهم العرب المستعربة إلخ،‌‌ الخبر عن ملوك القياصرة إلخ، 268/2، ط: دارالفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502102399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں