1۔ غیرمسلم ممالک میں مقیم مسلمان نوجوان اگر ان ممالک کی افواج میںبھرتی ہوتے ہیں اور ان کی لڑائی کسی مسلمان ملک کے خلاف ہوتی ہے اور یہ جوان اس لڑائی میں مارے جاتے ہیں تو ان کا کیا حکم ہوگا ؟ کیا شرعاً انہیں شہید مانا جائے گا؟
2۔ دو مسلم ممالک کی آپس کے لڑائی میں مارے جانے والے نوجوانوں کا کیا حکم ہوگا ؟ کیا شرعاً انہیں شہید مانا جائے گا؟
1۔صورت مسئولہ میں جو مسلمان غیر مسلم ملک کی فوج میں شامل ہوکر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں وہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے نہیں ہے،لہذ اگر یہ مسلمان لڑائی کے دوران مارے جائیں تو ’’ شہید ‘‘ نہیں کہلائیں گے،بلکہ اگر غیر مسلم فوج میں شامل مسلمان فوجی نے اپنے مقابل مسلم ملک کی فوج میں کسی مسلمان کو ناحق قتل کیا تو وہ سخت گناہ گار ہوگا۔
نیز ایسے غیر مسلم ملک کی فوج میں ملازمت اختیار کرنا جو اسلام کے خلاف بر سر پیکار ہو اور مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہو، کسی بھی صورت میں جائز نہیں؛ اس لیے کہ کفار کا لڑنا کلمہ کفر کی سر بلندی کے لیے ہوتا ہے،جب کہ مسلمان کے لڑنے کا مقصد کلمہ اسلام کی سربلندی ہوتا ہے،لہذا ایسی ملازمت سے احتراز کرنا لازم وضروری ہے۔
شرح السیر الکبیر میں ہے:
"ولو قال أهل الحرب لأسراء فيهم قاتلوا معنا عدونا من المشركين، وهم لا يخافونهم على أنفسهم إن لم يفعلوا فليس ينبغي أن يقاتلوهم معهم.لأن في هذا القتال إظهار الشرك، والمقاتل يخاطر بنفسه فلا رخصة في ذلك إلا على قصد إعزاز الدين، أو الدفع عن نفسه...
وإن قالوا لهم قاتلوا معنا المسلمين وإلا قتلناكم لم يسعهم القتال مع المسلمين.لأن ذلك حرام على المسلمين بعينه. فلا يجوز الإقدام عليه بسبب التهديد بالقتل، كما لو قال له: اقتل هذا المسلم وإلا قتلتك.
فإن هددوهم يقفوا معهم في صفهم ولا يقاتلوا المسلمين رجوت أن يكونوا في سعة.لأنهم الآن لا يصنعون بالمسلمين شيئا، فهذا ليس من جملة المظالم.
وأكبر ما فيه أن يلحق المسلمين هم لكثرة سواد المشركين في أعينهم، فهو بمنزلة ما لو أكره على إتلاف مال المسلمين بوعيد متلف، فإن كانوا لا يخافون المشركين على أنفسهم فليس لهم أن يقفوا معهم في صف، وإن أمروهم بذلك.لأن فيه إرهاب المسلمين وإلقاء الرعب والفشل فيهم، وبدون تحقق الضرورة لا يسع المسلم الإقدام على شيء منه."
(باب قتال أهل الإسلام أهل الشرك مع أهل الشرك، ص: 1516 ،1517، ط: الشركة الشرقية للإعلانات)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وهو في الشرع من قتله أهل الحرب والبغي وقطاع الطريق أو وجد في معركة وبه جرح أو يخرج الدم من عينيه أو أذنه أو جوفه أو به أثر الحرق أو وطئته دابة العدو وهو راكبها أو سائقها أو كدمته أو صدمته بيدها أو برجلها أو نفروا دابته بضرب أو زجر فقتلته أو طعنوه فألقوه في ماء أو نار أو رموه من سور أو أسقطوا عليه حائطا أو رموا نارا فينا أو هبت بها ريح إلينا أو جعلوها في طرف خشب رأسها عندنا أو أرسلوا إلينا ماء فاحترق أو غرق مسلم أو قتله مسلم ظلما ولم تجب به دية كذا في الكافي وكذا إن قتله أهل الذمة أو المستأمنون هكذا في العيني شرح الهداية."
(كتاب الصلاة،الباب الحادي والعشرون في الجنائز،الفصل السابع في الشهيد،1/ 167،ط:دار الفکر)
2۔جب دو مسلم ملکوں کی لڑائی ہو تو ان میں جو حق پر ہوگا اس کے لوگ شہید کہلائیں گے اور ان کے مد مقابل جماعت ظالم شمار ہوگی ،چنانچہ جب دو مسلم ممالک کی لڑائی ہو ،وہاں کے مفتیان ِ کرام سے اس بارے میں معلوم کرلے کہ کون حق پر ہے اور کون ظالم ہے،وہ حضرات اپنے ملکوں کے حالات کا جائز ہ لے کر شرعی رہنمائی فرمادیں گے،جیسا کہ فتاوی مفتی محمود صاحب (رحمہ اللہ )میں ہے :
’’سوال:کیا دو مسلم ممالک کی باہمی جنگ میں مارے جانے والے مسلمان کو شہید کہا جائے گا یا نہیں ؟
جواب: ان دونوں مسلم ممالک میں اہل علم حضرات ہوں گے جو دونوں جگہ کے حالات سے واقف ہوں گے کہ ان میں کون ظالم ہے کون مظلوم؟ان سے ہی اس مسئلہ کی تحقیق کی جائے ،امید ہے کہ وہ مظلوم کو شہید بتلائیں گے۔‘‘
(ج:9،ص:496،ط:جامعہ فاروقیہ کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100820
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن