بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر کی زمین میں دفن کرنے کی وجہ سے میت کو منتقل کرنا


سوال

میرے چچا 6 سال پہلے فوت ہوئے ،ان کی قبر کسی دوسرے کی زمین میں ہے، اکیلی قبر ہے، وہاں کوئی دوسری قبر نہیں، اور نہ ہی آگے بنے گی، اور دوسرے وہاں واش روم کا پانی وغیرہ بھی آتا ہے ،حال ہی میں میرے والد صاحب کا انتقال ہوا،  ان کی تدفین قبرستان میں کی گئی، جہاں اور بھی قبریں موجود ہیں ،ہم اپنے چچا کی قبر اپنے والد صاحب کے ساتھ قبرستان میں منتقل کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ تدفین کے بعد میت کوقبرسے  نکال  کر کہیں اورمنتقل کرناشرعاً جائز نہیں ہے ، البتہ کسی شدید عذر مثلاً کسی غیر کی زمین میں بلااجازت تدفین کی گئی ہو،  یاغصب شدہ زمین میں مردہ کو دفنایاگیاہواورمالك اپنے حق سے ست بردارہونے كوتيارنہ ہوتو اس صورت میں اس قبر کو برابر کردینا، یامیت کو منتقل کرنے کی اجازت ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرچچاکی میت كوكسی غير كی زمين ميں دفن كردياہواور مالک زمین ميت كی تدفين پررضامند نہ ہوتو چچاكی ميت كوكسی دوسری جگہ منتقل کرسکتےہیں ،لیکن اگرمالک زمین میت  کی تدفین پررضامندہو توپھرمیت کوکہیں اور منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اس صورت میں واش روم کاجوپانی قبر کی طرف   آرہاہو، اس کی روک تھام کےلیے تدبیرکرنی  چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے :

’’( ولا يخرج منه ) بعد إهالة التراب ( إلا ) لحق آدمي ك ( أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة ) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً‘‘.

(رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الجنائز 2/ 238  ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه، فإن نقل إلى مصر آخر لابأس به، ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس‘‘.

(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الجنائز، 4/ 486، ط: رشیدیۃ)

وفیه أیضاً:

’’ميت دفن في أرض إنسان بغير إذن مالكها كان المالك بالخيار إن شاء رضي بذلك وإن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فوقها، وإذا حفر الرجل قبراً في المقبرة التي يباح له الحفر فدفن فيه غيره ميتاً؛ لاينبش القبر ولكن يضمن قيمة حفره؛ ليكون جمعاً بين الحقين، كذا في خزانة المفتين، وهكذا في المحيط‘‘. 

(کتاب الوقف، ج:2،ص472،ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں