بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیس کمپریسر استعمال کرنے کا حکم


سوال

گیس پریشر لگانے کا حکم آج کل گیس کا کافی بحران ہے، کہیں گیس بالکل نہیں اور کہیں بہت کم آتی ہے تو کہیں آتی جاتی رہتی ہے تو اگر اس پریشانی سے پچنے کے لیے کوئی شخص گیس پریشر لگوائے اور صرف ضرورت کے مطابق ہی گیس استعمال کرے تو کیا جائز ہوگا؟ 

اور دوسرے لوگ بھی کثرت سے استعمال کرتے ہیں کیا ان کی وجہ سے ہم لگا سکتے ہیں۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں گیس کی قلت کی وجہ سے زیادہ گیس کھینچنے کے لیے گیس کمپریسر یا اس طرح کے دوسرے آلات لگانا  مندرجہ ذیل کئی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہے:

1:مذکورہ عمل سے دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے،ظاہر ہے کہ جب گیس کا پریشر کم ہوگااور گیس کمپریسر کے ذریعہ گیس کھینچ لی جائے تو آس پاس کے لوگوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوگی اور وہ اس معمولی گیس سے بھی محروم ہوجائیں گے،اور جو چیز عام لوگوں کی تکلیف کا ذریعہ بنے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہوتا ہے۔

2: گیس کھینچنے کے لیے گیس کمپریسر کا استعمال کرنا (قطع نظر اس سے کہ عام لوگ استعمال کررہے ہیں) خطرے اور حادثے (گیس دھماکے جیسے واقعات)کا باعث بھی بن سکتاہے، جس کی وجہ سے حکومت کی طرف سے کمپریسر کے ذریعہ گیس حاصل کرنا قانوناً  جرم ہے،اور مفادِ عامہ کے خاطر حکومتی پابندی کی پاس داری کرنا ہر مسلمان کا شیوہ ہے۔

3: گیس کمپریسر استعمال کرنا حکومتی پابندی کی وجہ قانون شکنی ہے، اور اس قانون شکنی کی صورت میں مال اور عزت کا خطرہ بھی رہتا ہے، اور پکڑے جانے کی صورت میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سزا ملنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے، اور اپنے آپ کو ذلت کے مواقع سے بچانا شرعاً ضروری ہے۔

تاہم جن علاقوں میں گیس کی کمی ہے تو وہاں کے باشندگاں بجائے اس عمل کےاپنی ضروریات ایسے اوقات میں پوری کریں کہ جن اوقات میں گیس معمول کے مطابق ہو یا جس قدر گیس مہیا ہواسی پر اکتفا کرلیاجائے، اس صورت میں وقت کاخرچ اور مشقت ضرور ہوگی، تاہم دوسروں کو(خواہِ ایک فرد ہی کیوں نہ ہو) ان کے حق سے محروم کرنے اور  مذکورہ عمل سے متوقع حادثات ونقصانات سے انسان محفوظ رہےگا، نیز  قانون شکنی بھی نہیں ہوگی۔ ہاں اگر حکومت کی جانب سے اجازت ہو تو سب کو لگانے کی اجازت ہوگی۔

نیز  دوسرے لوگ استعمال کریں یا نہ کریں اس بات کو بنیاد بنا کر اپنے لیے اس کو جائز نہ سمجھا جائے،نیز جو لوگ منع کرنے کے باوجود بھی استعمال سے باز نہ آئیں تو ان کو مسئلہ شرعی سے آگاہ کرکے سمجھایا جائے تاکہ وہ اس گناہ کے عمل سے احتیاط کریں، تاہم مذکورہ گیس پر تیار شدہ کھانا حرام نہ ہوگا، بشرطیکہ کھانے کے اجزاء ترکیبی میں کوئی حرام و ناجائز چیز شامل نہ ہو۔

فيض القدير شرح الجامع الصغیر میں ہے:

"( لا ضرر ) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئا من حقه ( ولا ضرار ) فعال بكسر أوله أي لا يجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقا والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة أي كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل وقال الحرالي : الضر بالفتح والضم ما يؤلم الظاهر من الجسم وما يتصل بمحسوسه في مقابلة الأذى وهو إيلام النفس وما يتصل بأحوالها وتشعر الضمة في الضر بأنه عن قهر وعلو والفتحة بأنه ما يكون من مماثل أو نحوه اه . وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النكرة في سياق النفي تعم وفيه حذف أصله لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا أي لايجوز شرعًا إلا لموجب خاص وقيد النفي بالشرع لأنه بحكم القدر الإلهي لاينبغي وأخذ منه الشافعية أن للجار منع جاره من وضع جذعه على جداره وإن احتاج وخالف أحمد تمسكا بخبر لا يمنع أحد جاره أن يضع خشبته على جداره ومنعه الشافعية بأن فيه جابر الجعفي ضعفوه وبفرض صحته [ ص 432 ] فقد قال ابن جرير : هو وإن كان ظاهره الأمر لكن معناه الإباحة والإطلاق بدليل هذا الخبر وخبر إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام".

 (باب حرف " لا "، رقم الحديث:9899، ج:6، ص:431، ط:داراحياء التراث العربى)

فتاوی شامی(الدّرالمختار وردالمحتار) میں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون»  فإن لم يضر لم يكره

(قوله وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغة: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعا: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوما لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس» وفي رواية «فقد برئ من الله وبرئ الله منه» قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى «فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا» الصرف: النفل، والعدل الفرض شرنبلالية عن الكافي وغيره وقيل شهرا وقيل أكثر وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم لحصوله وإن قلت المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى در منتقى مزيدا، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى كذا في الكافي، وعن أبي يوسف كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار وعن محمد الاحتكار في الثياب ابن كمال.

(قوله في بلد) أو ما في حكمه كالرستاق والقرية قهستاني (قوله يضر بأهله) بأن كان البلد صغيرا هداية (قوله والمحتكر ملعون) أي مبعد عن درجة الأبرار، ولا يراد المعنى الثاني للعن وهو".

(كتاب الحظر والاباحة،ج:6، ص:398، ط:ايج ايم سعيد)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال آية المنافق: ثلاث إذا حدّث كذب، و إذا وعد أخلف، و إذا أوتمن خان". 

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الکبائر وعلامات النفاق، رقم الحدیث:55، ج:1، ص:23، ط:المکتب الاسلامی)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟".

(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث. القاهرة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406102035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں