بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرمسلموں کےہوٹل میں کھاناکھانےکاحکم


سوال

آج میں کسی کام سے بازار گیا تھا، راستہ میں مجھے تیز کی بھوک لگ گئی تھی ؛اس لئے میں نے ایک ہوٹل جا کر چکن بریانی کھائی، لیکن کھانے کے بعد معلوم ہوا ،کہ یہ ہوٹل ایک ہندو بھائی کا ہے، اور غالب گمان ہوتا ہے، کہ ذبح کرنے میں کسی مسلمان کا دخل نہیں ہے ،اس کاحکم بیان کریں۔

جواب

واضح رہےکہ جب تک حلال جانورکوئی مسلمان یاکتابی اللہ کانام لےکرذبح نہ کرے،اس وقت تک اس کاکھاناجائزنہیں،اور جہاں (غیر مسلموں کے علاقے میں) یہ معلوم نہ ہو کہ جانوراللہ کانام لےکرذبح ہوا ہے یانہیں،توایسےگوشت کےکھانےسےاجتناب کرناضروری ہے؛لہذا صورتِ مسئولہ  میں سائل ہندوستان میں ہوٹل میں گوشت کھانا چاہتا تھا تو اسے کھانے سےقبل اس بارےمیں معلوم کرنا چاہیے تھا،تاہم بےدھیانی میں سائل نے ہندوکےہوٹل سےمشکوک گوشت کھایاہے،اب سائل کوچاہیےکہ سچےدل سےتوبہ واستغفارکرے،اورآئندہ احتیاط کریں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون مسلما أو كتابيا فلا تؤكل ذبيحة أهل الشرك والمجوسي والوثني وذبيحة المرتد أما ذبيحة أهل الشرك فلقوله تعالى {وما أهل لغير الله} [المائدة: 3] وقوله عز وجل {وما ذبح على النصب} [المائدة: 3] أي للنصب وهي الأصنام التي يعبدونها.

وأما ذبيحة المجوس فلقوله - عليه الصلاة والسلام - «‌سنوا ‌بالمجوس ‌سنة ‌أهل ‌الكتاب ‌غير ‌ناكحي ‌نسائهم ‌ولا ‌آكلي ‌ذبائحهم» ولأن ذكر اسم الله تعالى على الذبيحة من شرائط الحل عندنا لما نذكر ولم يوجد."

(كتاب الذبائح والصيود،فصل في بيان شرط حل الأكل في الحيوان المأكول،40/5،ط:دار الكتب العلمية وغيرها)

المحیط البرھانی میں ہے:

"ولا بأس بطعام المجوس كله إلا الذبيحة، فإن ذبيحتهم حرام، قال عليه السلام: «سنوا بالمجوس سنة أهل الكتاب غير ناكحي نسائهم، ولا آكلي ذبائحهم»."

(كتاب الاستحسان والكراهية،‌‌الفصل السادس عشر في معاملة أهل الذمة،٣٦٢/٥،ط:دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"قال محمد رحمه الله: يكره الأكل والشرب في ‌أواني المشركين قبل الغسل؛ لأن الغالب والظاهر من حال أوانيهم النجاسة، فإنهم يستحلون الخمر والميتة ويشربون ذلك، ويأكلون من قصاعهم وأوانيهم، فكره الأكل والشرب فيها قبل الغسل اعتبارا للظاهر."

(كتاب الاستحسان والكراهية،الفصل السادس عشر في معاملة أهل الذمة،٣٦١/٥،ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں